افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے کہا ہے کہ افغانستان کو آئندہ سال فوج میں بدعنوانی اور قیادت کے مسائل کے بڑے چیلنج درپیش ہوں گے۔
جنرل نکولسن نے پینٹاگان میں جمعہ کو کہا کہ "افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے کچھ حصے اس سے متاثر ہیں اور اس کی وجہ سے میدان جنگ میں فوجیوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہو رہی ہے۔"
جنرل نکولسن نے کہا کہ ترسیل کے ںظام کے غیرموثر ہونے اور بدعنوانی کی وجہ سے بیرونی چوکیوں پر تعینات فوجیوں کے پاس نا تو پانی و خوراک ہے اور نا ہی لڑائی کے لیے درکار گولہ و بارود ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ان مسائل کے بارے میں انہوں نے افغان فوج اور حکومت کے راہنماؤں کے ساتھ "بہت واضح انداز میں" بات کی ہے اور (ان) کی توجہ ان کے حل تلاش کرنے پر مرکوز ہوگی جن میں موسم سرما کی مہم کے دوران "بدعنوان (فوجی) راہنماؤں" کی تبدیلی بھی شامل ہے۔
افغان فورسز کا اب بھی ملک کی دو تہائی آبادی پر کنٹرول ہے تاہم رواں سال ستمبر سے یہ تعداد 68 فیصد سے کم ہو کر 64 فیصد ہو گئی ہے۔
نکولسن نے کہا کہ اس کمی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ طالبان نے زیادہ علاقے پر قبضہ کر لیا ہے تاہم زیادہ آبادی وہاں ہے جہاں" لڑائی" ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی 10 فیصد سے کم آبادی طالبان کے کنٹرول میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کے حملوں کے دوران افغان فورسز ان پر غالب رہی ہیں۔
امریکی جنرل نے مزید کہا کہ طالبان کی طرف سے "بڑے" حملے کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے اور انہوں نے شہروں کو الگ تھلگ کرنے اور لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنےکی کوشش میں "چوکیوں پر چھوٹے پیمانے پر حملے کیے ہیں۔"
نکولسن نے کہا کہ عسکریت پسند گروپ نے اگست کے بعد سے افغانستان میں صوبائی دارالحکومت پر قبضے کرنے کی آٹھ بار کوشش کی ہے۔ "ان کی ہر ایک کوشش ناکام ہو گئی۔"
2015 کے مقابلے میں رواں سال ملک بھر میں ہونے والے بڑے حملوں کی تعداد کم تھی۔ گزشتہ سال افغان حکومت کی اطلاعات کے مطابق کابل میں 18 بڑے حملے ہوئے جب کہ رواں سال ان کی تعداد 12 تھی اور اس لحاظ سے ان حملوں میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔