افغانستان میں بچوں کی کل آبادی کی تقریباً نصف تعداد اسکولوں سے باہر ہے جس کی وجہ لڑائی، غربت، کم عمری کی شادی اور لڑکیوں سے متعلق امتیازی رویہ ہے۔
یہ بات اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال، یو ایس ایڈ اور ایک غیر جانبدار تھنک ٹینک 'سیمیوئل ہال' کی اتوار کو جاری ہونے والی مشترکہ رپورٹ میں کہی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ تشدد کے بڑھتے واقعات کے باعث بہت سے اسکولوں کو بند کرنا پڑا اور ایک ایسا ملک جہاں لاکھوں بچوں نے کبھی اسکول میں قدم نہیں رکھا وہاں بچیوں کی تعلیم کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔
افغانستان کے وزیرتعلیم میرواعظ بلخی نے اس رپورٹ سے متعلق ایک سیمینار میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ سات سے 17 سال کی عمر کے 37 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں جن میں 27 لاکھ بچیاں بھی شامل ہیں۔
افغانستان میں طالبان جو کہ مختلف علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز سے لڑائیوں میں مصروف ہیں، وہ بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں جب کہ شدت پسند تنظیم داعش کے خطرات کے باعث بھی درجنوں اسکول بند کیے جا چکے ہیں۔
تاہم بلخی نے ان دونوں عناصر کا تذکرہ کیے بغیر کہا کہ بچوں کے اسکول نہ جانے کی بہت سی وجوہات ہیں۔
"انسانی سماج میں بچوں کی تعلیم سب سے اہم پہلو ہے، یہ غربت، جنگ اور بے روزگاری ختم کرنے کے لیے اہم ترین ہتھیار ہے۔"
رپورٹ میں بتایا گیا کہ لڑائی سے شدید متاثرہ علاقوں میں 85 فیصد بچیاں اسکول نہیں جاتیں۔
رپورٹ میں یونیسف کے ایڈیل کھوڈر کا کہنا تھا کہ "اگر افغانستان ہر بچے کے حق حصول تعلیم کی پاسداری کو یقینی نہیں بنایا تو اس کے لیے یہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ چیزیں ایسی ہی چلتی رہیں۔ جب بچے اسکول نہیں جاتے تو ان کے لیے خطرات یا استحصال کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔"