نو منتخب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ ان کا ملک افغانستان میں مزید فوجیں نہیں بھیجے گا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کو کابل میں افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
مسٹر کیمرون وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ ایک ایسے ملک کا دورہ کررہے ہیں جسے برطانیہ کی مخلوط حکومت کی خارجہ پالیسی میں ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔
انھوں نے کہا کہ سال 2010ء بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں افغانستان کی صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔ ”رواں سال ہمیں زیادہ کارکردگی دکھانا ہوگی نہ صر افغان شہریوں کے لیے بلکہ برطانیہ میں بھی لوگ یہی چاہتے ہیں“۔
برطانوی وزیراعظم نے طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے دیسی ساختہ بم حملوں سے نمٹنے کے لیے چھ کروڑ70لاکھ پاؤنڈ کے اضافی منصوبوں کا بھی اعلان کیا۔ اس رقم سے افغانستان میں ایسی کارروائی سے نبردآزما برطانوی اہلکاروں کی تعداد بھی دوگنی ہوجائے گی۔
مسٹر کیمرون نے کہا کہ کوئی بھی ضرورت سے زیادہ ایک دن بھی برطانوی فوجوں کی افغانستان میں موجودگی نہیں چاہتا۔انھوں نے کہاکہ ان کے ملک کی سلامتی کے مفاد کے پیش نظر وہ چاہتے ہیں کہ جلد افغان حکومت کو اختیار دیا جائے تاکہ اپنی سکیورٹی کا انتظام خود سنبھال لے۔
افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف برسر پیکار بین الاقوامی افواج میں برطانیہ کے تقریباً 9500فوجی بھی شامل ہیں جو امریکہ کے بعد اس ملک میں غیر ملکی فوجیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔2001ء کے بعد افغانستان میں اس کے 294فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔
فوجیوں کی ہلاکت اور جنگ پراٹھنے والے اخراجات سے معاشی بوجھ میں اضافے کے باعث برطانیہ میں افغان جنگ کی حمایت میں حالیہ برسوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔نئی حکومت بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرنا چاہ رہی ہے۔