رسائی کے لنکس

افغانستان میں لڑکیوں کے قومی ترانہ پڑھنے پر پابندی کا میمو ، عوامی رد عمل کیا ہے؟


بارہ سال سے زائد عمر کی افغان طالبات کو مخلوط تقریبات میں قومی ترانہ پڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔
بارہ سال سے زائد عمر کی افغان طالبات کو مخلوط تقریبات میں قومی ترانہ پڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔

افغانستان کی وزارت تعلیم کو 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو مخلوط اجتماعات میں قومی ترانہ پڑھنے پر پابندی عائد کرنے کے بعد شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 6 مارچ کا یہ حکم اس وقت منظر عام پر آیا جب کسی نے وزارت تعلیم کی طرف سے جاری کئے گئے سرکاری میمو کی تصویر لے کر اسے تعلیمی اداروں اور سوشل میڈیا پر جاری کر دیا۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کی تازہ رپورٹ کے مطابق، وزارت تعلیم کی ترجمان کا کہنا ہے کہ کابل کے تمام سکولوں کو بھیجا گیا یہ میمو واپس لیا گیا ہے، کیونکہ میمو لکھنے والوں نے پیغام لکھنے کے لئے درست الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔ ترجمان کے بیان کے مطابق محکمہ تعلیم کا مقصد وبائی مرض کا پھیلاو روکنے کے لئے لڑکوں اور لڑکیوں کو عوامی اجتماعات میں حصہ لینے سے روکنا تھا۔ وزارت تعلیم کی طرف سے جاری کئے گئے نئے میمو کے مطابق، طلبا اور طالبات دونوں پر عوامی اجتماعات میں قومی ترانہ پڑھنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

اس سے قبل افغانستان کے سرکاری طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے اے آئی ایچ آر سی نے اس اقدام کو بچوں کے حقوق، افغانستان کے آئین اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

اے آئی ایچ آر سی نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ ’’تعلیم، اظہار رائے کی آزادی اور فنکارانہ مہارت تک رسائی تمام بچوں کا بنیادی حق ہے۔ تمام لڑکے اور لڑکیاں قانونی طور پر عمر یا جنس پر مبنی امتیاز کے بغیر یکساں اور آزادانہ طور پر اپنے حقوق کا استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘

کابل میں ہائی اسکول کی ایک 17 برس کی طالبہ اور اپنے ہائی اسکول بینڈ کی ممبر رویا احمدی کا کہنا تھا کہ ’’جب میں نے یہ خبر سوشل میڈیا سے سنی، تو یہ میرے لیے بہت مایوس کن تھا۔ چونکہ یہ فیصلہ ایک ایسے محکمے نے کیا ہے، جو ایک خاتون منتظم کے ماتحت چل رہا ہے۔‘‘

رویا احمدی افغانستان کی عبوری وزیر تعلیم رنگینا حامدی کا ذکر کر رہی تھیں۔

احمدی نے مزید کہا کہ ’’کسی کی صنف سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس کی سوچ کیا ہے اور وہ کس چیز کو پسند کرتا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’مجھے تو خواتین کی آواز بننا پسند ہے۔‘‘

افغانستان میں سوشل میڈیا پر وزارت تعلیم کے اس فیصلےکے حوالے سے تنقید کی جا رہی ہے۔

ایک ٹویٹر صارف، مرجان متین نے 2019 کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر شئیر کیا ہے، جس میں سکول کی طالبات ایک بڑے پیمانے کی تقریب میں قومی ترانہ گا رہی ہیں اور اسٹیج پر ان کا ساتھ دینے والوں میں یونیفارم میں ملبوس لڑکوں کی کئی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔

متین نے اپنی ٹویٹ میں طالبات کو مخاطب کر کے لکھا ہے، ’’ہم نے آپ کو مایوس کیا، ہمیں افسوس ہے۔‘‘

افغانستان میں میوزک کے قومی انسٹی ٹیوٹ کے بانی ڈاکٹر احمد سرمست نے ایک بیان میں کہا کہ اس اعلان سے ’’قوم کو صدمہ پہنچا ہے۔‘‘

افغانستان میں محکمہ تعلیم کی عبوری وزیر رنگینا حمیدی نے گذشتہ سال جون میں اپنا عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ امریکہ میں یونیورسٹی آف ورجینیا سے تعلیم یافتہ ہیں۔ اوپن سوسائٹی افغانستان، افغان ویمن چیمبر آف کامرس اور افغان انسٹی ٹیوٹ فار سول سوسائٹی جیسی تنظیموں کے مشاورتی بورڈ کا حصہ ہیں۔

اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے وزارت کے اسلامک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کو کچھ دیگر شعبوں میں ضم کرنے کی کوشش کی تھی جسے افغانستان کے مذہبی حلقوں کے احتجاج کے بعد واپس لے لیا گیا تھا۔

لیکن افغانستان میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بارہ سال سے زائد عمر کی لڑکیوں پر مخلوط اجتماعات میں قومی ترانہ گانے پر پابندی کا حالیہ اقدام مذہبی رجحان رکھنے والے طبقے کو راضی کرنے کی کوشش ہوسکتا ہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں، رنگینا حمیدی کو قائم مقام وزیر کے عہدے سے مستقل وزارت تعلیم کا قلم دان دینے کے لئے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت تھی، لیکن وہ افغان پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھیں۔ جس کے بعد ان پر سیاسی طور پر استعفی دینے کا دباؤ بھی موجود ہے۔

XS
SM
MD
LG