حکومت افغانستان، طالبان اور سابق افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیر کے روز دیے گئے بیان کی مذمت کی ہے، جس میں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے وائٹ ہاؤس ملاقات کے دوران کہا تھا کہ اگر وہ چاہتے تو افغان جنگ ایک ہفتے میں جیتی جا سکتی تھی۔ لیکن اس کے لیے ایک کروڑ افغان ہلاک ہو جاتے، جو وہ نہیں چاہتے۔
ایک بیان میں، افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان، صدیق صدیقی نے کہا ہے کہ ’’افغان قوم کسی غیر ملکی طاقت کو ہرگز یہ اجازت نہیں دے گی، اور نہ ہی ایسی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ ہماری قسمت کا فیصلہ کرے‘‘۔
ترجمان نے کہا ہے کہ ’’افغانستان اور امریکہ کے کثیر جہتی تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے، حکومت اسلامی جمہوریہ افغانستان امریکی صدر کے بیان کی وضاحت کا مطالبہ کرتی ہے‘‘۔
ساتھ ہی، طالبان کے ترجمان اور سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی امریکی صدر کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے بیان کی مذمت کی ہے۔
"امریکہ کو یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا"
ایک بیان میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ’’میں نے بیان دیکھا ہے اور ویڈیو کلپ سنا ہے۔ میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں‘‘۔
بقول کرزئی ’’یہ مجرمانہ ذہنیت کی پیداوار ہے‘‘، جس میں، بقول ان کے، افغانستان اور افغان عوام کے لیے ’’حقارت‘‘ کا اظہار ہوتا ہے۔
امریکی فوج کے ممکنہ انخلا سے متعلق سوال پر، انہوں نے کہا کہ ’’پہلی بات تو، امریکہ کو یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ انہیں چلا جانا چاہیے۔ وہ ابھی چلے جائیں!‘‘۔
امریکہ نے افغانوں کو ہلاک کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی: طالبان
طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے ٹرمپ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’گذشتہ 18 برسوں کے دوران امریکہ نے افغانوں کو ہلاک کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی؛ یہاں تک کہ ہلاکت خیز، ’تمام بموں کی ماں‘ تک کو بھی استعمال کیا گیا‘‘۔
بقول طالبان، ’’جارحیت اور زیادتی پر مبنی پالیسی بیکار ہے‘‘؛ اور یہ کہ’’ اس سے افغانستان کی تاریخ سے نابلد ہونے کا پتا چلتا ہے، کہ آخر یہ خطہ سلطنتوں کا قبرستان کیوں کہلاتا ہے‘‘۔
پیر کے دن اپنے کلمات میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ افغانستان کی لڑائی کا ایک ہفتے کے اندر خاتمہ ممکن تھا، لیکن اس کے لیے ملک میں لاکھوں زندگیوں کو نقصان پہنچتا اور ’’ملک کا نام و نشان روئے زمین سے مٹ جاتا‘‘۔
بقول ان کے، ’’اگر میں افغانستان میں لڑائی لڑنا اور جیتنا چاہتا، تو میں ایک ہفتے میں لڑائی جیت سکتا تھا۔ لیکن، میں ایک کروڑ افراد کو ہلاک نہیں کرنا چاہتا۔ افغانستان کا نام روئے زمین سے مٹ جاتا۔ ختم ہوجاتا۔ یہ (لڑائی) 10 روز میں ختم ہوجاتی۔ میں یہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں یہ راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتا‘‘۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، 18 برس سے جاری افغان لڑائی کو ختم کرنے کے لیے امریکہ سفارتی حکمت عملی جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے لیے امریکہ قطر میں طالبان سے مذاکرات کرتا رہا ہے۔ اس ضمن میں، غیر سرکاری طور پر وہ امن معاہدہ طے کرنے پر رضامند لگتا ہے۔
اس پیش رفت کے باوجود، افغانستان میں دہشت گرد حملوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
امریکہ کو توقع رہی ہے کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ براہ راست ملاقات کریں۔
گذشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا پر تیار ہے؛ لیکن وہ نظام الاوقات پر رضامند نہیں۔
پومپیو نے کہا تھا کہ امریکہ کو امید ہے کہ یکم ستمبر تک معاہدہ طے پا جائے گا، جبکہ اس ماہ کے اواخر میں افغان صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔