طالبان اور امریکہ نے قطر میں ہفتے بھر سے جاری مذاکرات مکمل کر لیے ہیں۔ لیکن، افغانستان میں امن کی کوششوں کو بڑھاوا دینے کے لحاظ سے کوئی خاص پیش رفت حاصل نہیں کی۔
باغی گروپ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بات چیت جن دو معاملات پر مرتکز رہی ان میں امریکی فوجی انخلا کے بدلے طالبان کی جانب سے یہ یقین دہانی کرانا شامل ہے کہ دیگر ملکوں کے خلاف حملوں کے لیے افغان سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سہیل شاہین نے ان مذاکرات کو بات چیت کا چھٹا دور قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ مثبت اور تعمیری‘‘ تھے۔
انھوں نے کہا کہ ابتدائی سمجھوتے پر ’’کچھ پیش رفت‘‘ حاصل کی گئی ہے، جو مارچ کے اوائل میں ہونے والے اجلاس میں حاصل کی گئی تھی، جس میں مختلف امور پر گفت و شنید کی گئی۔
بقول ان کے، ’’دونوں فریقین نے ایک دوسرے کو دھیان اور تحمل سے سنا‘‘۔
شاہین نے کہا کہ طالبان اور امریکی مذاکراتی ٹیمیں ایک دوسرے کے رہنماؤں سے مشورہ کریں گی، ’’تاکہ بات چیت کے آئندہ دور میں انہیں زیر بحث لایا جائے‘‘۔ اُنھوں نے مزید وضاحت نہیں کی۔
خصوصی امریکی نمائندے، زلمے خلیل زاد امریکی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ افغان نژاد امریکی مذاکرات کار نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ حتمی سمجھوتا مربوط جنگ بندی اور بین الافغان مکالمے میں باغیوں کی شرکت کے ساتھ منسلک کیا جائے گا، تاکہ مخاصمانہ کارروائیوں کو مستقل طور پر بند کیا جا سکے۔
لیکن، طالبان اس بات کے خواہاں ہیں کہ امریکہ فوج کے انخلا پر رضامند ہو اور اس کا اعلان کرے، جس کے بعد وہ دیگر معاملات پر بات چیت کریں گے، جن کی مدد سے افغانستان میں پائیدار امن لایا جا سکے۔