امریکی فوجیں اس مہینے افغانستان سے بتدریج واپسی کا سفر شروع کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی امریکہ اور افغانستان کی حکومتیں طالبان کے ساتھ یا کم از کم طالبان کے بعض عناصر کے ساتھ، سیاسی تصفیے کے امکانات کا ابتدائی جائزہ لے رہی ہیں۔ لیکن مصالحت کا یہ عمل خاصا مشکل ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دور میں بیشتر جنگوں کا خاتمہ مکمل فتح کی صورت میں نہیں، بلکہ مذاکرات کے نتیجے میں تصفیے پر ہوا۔ ویتنام، بلقان اور سوڈان میں گولہ باری کی جگہ مذاکرات نے لے لی۔ بعض کیسوں میں مذاکرات کے نتیجے میں مسئلے کا مستقل حل مل گیا اور حالات مستحکم ہو گئے جب کہ بعض دوسرے کیسوں میں کسی ایک فریق کو اتنا وقت مل گیا کہ وہ تنازعے سے اپنا پیچھا چھڑا لے۔
اب جب کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی بتدریج واپسی شروع ہو رہی ہے افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت اور طالبان تحریک کے بعض عناصر کے درمیان ابتدائی رابطے ہوئے ہیں۔ ان مذاکرات کو صدر اوباما کی حمایت حاصل ہے۔ جون میں انھوں نے کہا تھا کہ افغانستان میں سیاسی تصفیے کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ’’ہم افغان حکومت اور سیکورٹی فورسز کو مضبوط کر رہےہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ ایسے اقدامات میں شامل ہو گا جن سے طالبان سمیت افغان عوام کے درمیان مصالحت کی صورت پیدا ہو۔ ان مذاکرات کے بارے میں ہمارا موقف واضح ہے۔ ان کی قیادت افغان حکومت کو کرنی چاہیئے اور جو لوگ پُر امن افغانستان کا حصہ بننا چاہتےہیں انھیں القاعدہ سے تعلق توڑنا ہوگا تشدد کو خیر باد کہنا ہوگا اور افغان آئین کی پابندی کرنی ہوگی۔‘‘
کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے تجزیہ کار اینڈریو وائیلڈر اس کوشش کے بارے میں پُر امید ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ مذاکرات کا نتیجہ حوصلہ افزا نہیں ہوگا۔ ’’میرے خِیال میں رکاوٹیں اور پیچیدگیاں بہت زیادہ ہیں اورضروری نہیں کہ آخر میں کوئی صاف ستھری مصالحت ہو جائے۔ لیکن جیسے جیسے ہمارے سامنے مواقع پیدا ہوں اور ہم ان سب پرغور کرنا شروع کردیں تو طالبان کے اندر بعض گروپوں میں بعض نکات پر اتفاقِ رائے ہو سکتا ہے۔ میں اب بھی پُر امید ہوں کہ مذاکرات کے نتیجے میں مصالحت ہو سکتی ہے۔‘‘
امریکہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ افغان فوج اور پولیس کو اس حد تک تربیت دے دی جائے کہ وہ سیکورٹی کے فرائض سنبھال سکیں تا کہ 2014ء تک امریکی فوجیں واپس بلائی جا سکیں۔ اس کے ساتھ ہی جو امریکی فوجیں افغانستان میں رہ جائیں گی وہ طالبان پر فوجی دباؤ ڈالیں گی تا کہ وہ مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار ہو جائیں۔
بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغان فوج بتدریج لیکن مسلسل ترقی کر رہی ہے لیکن پولیس کا معاملہ مختلف ہے۔ اینڈریو وائیلڈر کہتے ہیں کہ ’’پولیس کی تعداد بڑھانے اور اس کی کوالٹی بہتر بنانے کی کوشش پر اربوں ڈالر کے خرچ کے باوجود پولیس کو اب بھی سیکورٹی کا حل نہیں بلکہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے جو شہریوں کی سیکورٹی کو بہتر بنانے کے بجائے حکومت کی مقبولیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔‘‘
امریکہ میں افغانستان کے سابق سفیر سید طیب جواد کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ طالبان کسی قسم کا سودا کرنے کے لیے دباؤ محسوس نہ کریں۔ ’’طالبان پر خاص طور سے جنوب میں، دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن انہیں ملک کے دوسرے حصوں میں نقل و حرکت کی زیادہ آزادی مل گئی ہے۔ ان کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ انہیں جنگ میں شکست نہیں ہوئی ہے۔ اور اگر وہ جنگ ہارے نہیں ہیں تو پھر وہ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہوں گے کیوں کہ طالبان کے نزدیک فتح کی تعریف امریکہ اور افغان عوام کی تعریف سے بہت مختلف ہے۔‘‘
طالبان نے حال ہی میں کئی اہم شخصیتوں کے قتل کا دعویٰ کیا ہے۔ ان میں صدر کرزئی کے سوتیلے بھائی اور قندھار کے میئر بھی شامل ہیں۔ لیکن قندھار کے میئر کے قتل کے بعد افغانستان میں امریکہ کے سفیر ریان کروکر نے کہا کہ قتل کی یہ وارداتیں طالبان کی طاقت کی نہیں بلکہ انکی کمزور کی علامت ہیں۔ ’’میرا کہنا یہ ہے کہ طالبان کو اب اس حد تک نقصان پہنچ چکا ہے کہ وہ جنگی کارروائیاں نہیں کرسکتے۔ انھیں خود کو نئے سرے سے منظم کرنا پڑا ہے اور یہ سوچنا پڑا ہے کہ اب وہ کیا کر سکتے ہیں۔ انھوں نے قتل کی کچھ وارداتیں کی ہیں اور عراق میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ ہولناک حملے ہیں لیکن انہیں طالبان کی اہم تنظیمی کمزوری بھی سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
تجزیہ کار کہتےہیں کہ طالبان کو اگر افغان حکومت میں بد عنوانی سمیت کسی کمزوری کا تاثر ملا تو وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ کرپشن کی ایک مثال ملک کے اعلیٰ ترین مالیاتی ادارے، کابل بنک کا تازہ ترین اسکینڈل ہے۔