افغانستان کے صدر اشرف غنی اتوار کو امریکہ کا اپنا پہلا سرکاری دورہ شروع کر رہے ہیں جسے دونوں ملکوں کے درمیان ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر تعلقات کے نئے باب کے آغاز کی جانب ایک اہم کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
صدر غنی افغانستان میں دہشت گردی بشمول طالبان، دیگر عسکریت پسند گروپوں اور داعش کے حامیوں کے خلاف کوششوں میں مزید امریکی فوجی حمایت حاصل کرنے کے خواہاں ہے۔
گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر غنی نے اس سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کی توثیق میں ان کے پیش رو حامد کرزئی لیت لعل سے کام لیتے رہے۔
اس معاہدے کے تحت 2014 میں بین الاقوامی لڑاکا افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد بھی ایک محدود تعداد میں امریکی فوجی یہاں مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے تعینات رہیں گے۔
اتوار سے شروع ہونے والا ایک ہفتہ پر محیط یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب کہ افغانستان کی فوج پہلی مرتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف صوبہ ہلمند میں اپنے طور پر کارروائی میں مصروف ہے۔
فروری میں شروع کیے گئے اس آپریشن کی منصوبہ بندی میں صدر غنی ذاتی طور پر شامل رہے، اور توقع ہے کہ اپنے دورہ امریکہ میں اس آپریشن میں بشمول فضائی امداد کے وہ مزید امریکی تعاون کا مطالبہ کریں گے۔
صدر غنی کے قریبی ذرائع کے حوالے سے خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" نے کہا ہے کہ واشنگٹن میں ہونے والی ملاقاتوں میں وہ داعش کے بڑھتے ہوئے خطرات سے متعلق بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
اس دورے میں ان کے ہمراہ ملک کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سمیت 65 اعلیٰ عہدیدار بھی شامل ہیں۔
افغان صدر امریکہ میں عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور عطیات دینے والے مختلف اداروں کے عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کریں گےجس کا مقصد جنگ سے تباہ حال ملک کے اقتصادی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے کی جانی والی اصلاحات میں تعاون حاصل کرنا ہے۔
افغان صدر کے ایک قریبی ذرائع کے مطابق وہ "بہت بڑی توقعات" کے ساتھ اس دورے پر جا رہے ہیں۔