رسائی کے لنکس

ہلاکت خیز واقعات افغان امن عمل کی کوششوں کے لیے 'دھچکہ'


رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ جب تک طالبان آپس میں متحد نہیں ہوتے اس وقت تک افغانستان میں امن کی کوششیں ثمر بار ہونے کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

افغانستان میں حالیہ مہینوں میں شروع ہونے والی شدت پسندی کی لہر میں اس ہفتے انتہائی تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور دارالحکومت کابل سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے ہلاکت خیز واقعات میں 70 سے زائد لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

ہفتہ کو دیر گئے شمالی صوبے قندوز کے ضلع خان آباد میں ہونے والے بم دھماکے میں حکام کے مطابق 22 افراد ہلاک ہوئے جب کہ جمعہ کو ہونے والے بم دھماکوں میں 50 سے زائد لوگ مارے گئے۔

گزشتہ ماہ کے اواخر میں طالبان کے سربراہ ملا عمر کی وفات کی تصدیق اور حکومت سے جاری مذاکرات کے تناظر میں عام تاثر یہی تھا کہ جنگ سے تباہ حال ملک میں قیام امن کی طرف پیش رفت ہو سکے گی۔

لیکن نئے طالبان رہنما ملا اختر منصور کے تقرر کے بعد طالبان کے مختلف دھڑوں میں انتشار کی خبروں کے باعث یہ خیال کیا جانے لگا کہ پاکستان کی کوششوں سے افغان طالبان اور حکومت کو میز پر لانے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔

اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر جانان موسیٰ زئی نے ہفتہ کو پاکستان کی ایک اہم مذہبی شخصیت اور بظاہر طالبان میں اثرورسوخ رکھنے والے مولانا سمیع الحق سے ملاقات کر کے انھیں افغان امن عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا۔

مولانا سمیع الحق کے ترجمان مولانا یوسف شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان سفیر نے اپنے صدر کا پیغام بھی پہنچایا۔

"انھوں (سفیر) نے کہا کہ افغان صدر کہتے ہیں کہ مولانا (سمیع الحق) قیام امن میں اپنا کردار ادا کریں، مولانا سمیع الحق نے ان (سفیر) سے کہا کہ وہ طالبان کو موقع دیں کہ وہ اپنی صفوں کو درست کر سکیں۔"

تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نئے امیر کی تقرری کے باعث طالبان کے آپسی اختلافات افغان صدر کی جانب سے ملک میں قیام امن کی کوششوں کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں۔

افغان طالبان (فائل فوٹو)
افغان طالبان (فائل فوٹو)

سینیئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ تشدد کی اس حالیہ لہر سے بظاہر طالبان یہ تاثر زائل کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کی پہلے جیسی صلاحیت کھو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک طالبان آپس میں متحد نہیں ہوتے اس وقت تک افغانستان میں امن کی کوششیں ثمر بار ہونے کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

"خاص بات یہ ہے کہ لڑنے والے اور قربانی دینے والے (طالبان) خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ ہمیں کہتے ہیں کہ جنگ کریں اور دوسری طرف آپ مذاکرات کرتے ہیں تو یہ بڑا مشکل کو ہو گا ان کو منانا۔ اگر ملا منصور یہ نہ کر سکے اور مذاکرات شروع کر دیتے ہیں اور اگر فیصلہ جنگ بندی کا ہوتا ہے تو پھر اس پر عملدرآمد کس طرح ہوگا۔ میرے خیال میں اس سے بچنے کے لیے ملا منصور مزید چاہے گا کہ ان لوگوں کو منایا جا سکے اور اپنی مضبوط بنایا جا سکے۔"

گزشتہ سال افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد اب یہاں تقریباً 1200 غیر ملکی فوجی موجود ہیں جن میں اکثریت امریکیوں کی ہے۔ یہ فوجی افغان فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے تعینات ہیں لیکن طالبان کا موقف ہے کہ جب تک افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجی نہیں چلے جاتے وہ اپنی کارروائیاں کرتے رہیں گے۔

امریکی عہدیدار بھی اس تاثر سے اتفاق کرتے ہیں کہ طالبان کے مختلف دھڑوں میں پیدا ہونے والے اختلافات سے امن عمل کی کوششوں کو نقصان اور ملک میں تشدد پر مبنی واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

تاہم امریکہ یہ کہتا آیا ہے کہ ملک میں پائیدار امن اور خوشحالی کے لیے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور وہ بھی اس عمل کی حمایت کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG