افغانستان کی حکومت نے منگل کو دیر گئے اعلان کیا کہ اول نائب صدر عبدالرشید دوستم کے ماتحت کام کرنے والے سکیورٹی حکام کی طرف سے ایک سابق صوبائی گورنر کو یرغمال بنا کر تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزامات کی تحقیقات کی جائیں گی۔
صدر اشرف غنی کے دفتر کی طرف سے جاری کیے گئے اس اعلان سے قبل کابل میں اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپی یونین کے حکام نے مبینہ زیادتیوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
شمالی صوبہ جوزجان کے سابق گورنر احمد اشچی نے مقامی ٹی وی چینل "طلوع نیوز" کو اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کی تفصیل فراہم کی تھی۔
وہ دوستم کے سیاسی اتحادی تھے لیکن بعد ازاں ان کے حریف بن گئے۔
63 سالہ اشچی کا استدلال تھا کہ انھیں دو ہفتے قبل غیر قانونی طور پر حراست میں لے کر مبینہ طور پر پانچ روز تک دوستم کے احاطے میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے بقول بعد ازاں انھیں مقامی انٹیلی جنس ایجنسی کے حوالے کر دیا گیا جہاں وہ مزید 11 دن تحویل میں رہے۔
ان کی رہائی صوبائی عمائدین سے مذاکرات کے نتیجے میں عمل میں آئی۔
دوستم کی ترجمانی کرنے والے لوگوں نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور کہا کہ یہ نائب صدر کی ساکھ خراب کرنے کی سازش ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ اشچی کو سکیورٹی فورسز نے حکومت مخالف فورسز سے تعلق کے شبہے میں گرفتار کیا تھا نہ کہ یرغمال بنایا گیا۔
کابل میں اقوام متحدہ کے دفتر نے دوستم کے خلاف الزامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مناسب کارروائی اور احتساب کی اہمیت پر زور دیا۔
امریکی سفارتخانے کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ "اول نائب صدر کی طرف سے اشچی کی غیر قانونی حراست اور مبینہ ناروا سلوک نے شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔ ہم افغان حکومت کی طرف سے ان الزامات کی فوری تحقیقات کے قدم کا خیرمقدم کرتے ہیں۔"
کابل میں یورپی یونین کے مشن نے بھی ایسے ہی تحفظات کا اظہار کیا۔
ازبک النسل دوستم سابق قبائلی جنگجو سردار ہیں اور ان پر پہلے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور طالبان قیدیوں پر مظالم کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔