کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو افغانستان کے صوبہ کنٹر میں ایک امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنانے کی خبر سامنے آنے کے بعد اب افغان حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ ملا فضل اللہ اس حملے میں مارا گیا ہے۔
افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان محمد ردمنش نے امریکی خبر رساں ادارے 'دی ایسوسی ایٹڈ پریس' سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ ملا فضل اللہ اپنے دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کیے جانے والے ڈرون حملے میں ہلاک ہوگیا ہے۔
مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ کے ذریعے بتایا ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کر کے ڈرون حملے کے ذریعے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بارے میں آگاہ ہے۔ ٹویٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملا فضل اللہ 2009 سے افغانستان میں چھپا ہوا تھا اور وہ پاکستان میں آرمی پبلک سکول سمیت بہت سے حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔
اس سے قبل افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل مارٹن اوڈونیل نے جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا تھا کہ ملا فضل اللہ کو بدھ کو صوبہ کنٹر میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
ملا فضل اللہ کے مارے جانے سے متعلق پاکستان کی طرف سے تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
پاکستانی حکام یہ کہتے رہے ہیں ملا فضل اللہ اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ دیگر شدت پسند گروہوں کی قیادت نے افغانستان میں اپنی پناگاہیں قائم کر رکھی ہیں۔
سینیٹر لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم نے جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کی طرف سے ملا فضل اللہ کو نشانہ بنانا اُن کے بقول پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کی غمازی کرتا ہے۔
ان کے بقول، "میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑی ڈویلمپنٹ ہے اور ہم اس کو سراہتے ہیں۔"
اُنھوں نے کہا کہ ملا فضل اللہ کا مارا جانا 'ٹی ٹی پی' کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے کیوں کہ ان کے بقول "لیڈرشپ کی کمانڈ ٹوٹ جائے تو فرق تو پڑتا ہے۔"
فضل اللہ کا شمار پاکستان کو انتہائی مطلوب دہشت گردوں میں ہوتا ہے اور رواں سال امریکی محکمۂ خارجہ نے بھی ملا فضل اللہ سے متعلق اطلاع دینے پر 50 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا۔
پاکستانی حکام کے مطابق ملا فضل اللہ دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث تھا جس میں 120 سے زائد بچوں سمیت 140 افراد مارے گئے تھے۔
ملا فضل اللہ پر سوات میں ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملے میں ملوث ہونے کا بھی الزام تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں ملالہ کئی ہفتوں تک زندگی اور موت کی کشمکش مبتلا رہی تھیں اور صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام شروع کیا تھا جس پر انہیں امن کا نوبیل انعام بھی دیا جاچکا ہے۔
ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبر ایسے وقت سامنے آئی ہے جب رواں ہفتے ہی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا جہاں اُنھوں نے صدر اشرف غنی کے علاوہ افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن سے بھی ملاقات کی تھی۔
سینیٹر عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ کی افغانستان میں ملاقاتوں کے بعد ملا فضل اللہ کو نشانہ بنانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سہ فریقی تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔