افغان حکومت کے مشیر برائے قومی سلامتی حمد اللہ محب کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے۔
افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ایک مختصر بیان کے مطابق ملاقات منگل کی شام راولپنڈی میں جنرل باجوہ کی رہائش گاہ پر ہوئی جس میں افغان امن عمل، انسدادِ دہشت گردی میں تعاون اور علاقائی اقتصادی رابطوں کو فروغ دینے کے معاملے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
ٹوئٹ میں ملاقات کی مزید کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے۔
دوسری طرف پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر, کی طرف سےجاری ایک بیان کے مطابق ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، خطے کی امن و سلامتی کے صورتحال ، پاک افغان بارڈر مینجمنٹ اور افغان امن و مصالحت عمل سے متعلق امور پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔
افغان قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب کا دورۂ پاکستان، رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان فون پر ہونے والے رابطے کے بعد اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعلیٰ سطح کا پہلا رابطہ ہے۔
عمران خان اور صدر غنی کے درمیان پانچ مئی کو ہونے والے فون رابطے میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں قیامِ امن اور علاقائی رابطوں کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
دریں اثنا افغانستان کے سرکاری نشریاتی ادارے 'آر ٹی اے' نے کہا ہے کہ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کے ہمراہ قائم مقام افغان وزیرِ داخلہ مسعود اندرابی بھی پاکستان پہنچے ہیں جہاں وہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ اور سول حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے۔
افغان حکومت کا یہ وفد ایسے وقت پاکستان کے دورے پر ہے جب منگل کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغانستان کے بعض اہم سیاسی رہنماؤں اور عمائدین نے طالبان کے وفد سے ملاقات کی ہے۔
ملاقات میں طالبان وفد کی قیادت طالبان کے نائب امیر اور سیاسی امور کے سربراہ ملا برادر اخوند نے کی۔ اطلاعات ہیں کہ فریقین کے درمیان ماسکو میں ملاقاتوں اور مشاورت کا سلسلہ جمعرات تک جاری رہے گا۔
منگل کو روس کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس کی افتتاحی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے ملا برادر نے افغانستان میں قیامِ امن کے کسی بھی معاہدے پر اتفاقِ رائے کے لیے افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کو ضروری قرار دیا۔
ماسکو میں ہونے والا یہ اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکہ نے افغان طالبان کے ساتھ امن سمجھوتہ طے کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان کی سیاسی قیادت کے درمیان حالیہ مہینوں کے دوران قطر میں بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں۔
اگرچہ دونوں فریقین بات چیت میں پیش رفت کا دعویٰ کرتے آئے ہیں لیکن طالبان افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست بات چیت سے بدستور انکاری ہیں۔
لیکن افغان حکومت کا کہنا ہے کہ ماسکو میں ہونے والی بات چیت کے حالیہ دور میں روس میں تعینات افغان سفیر حکومت کی نمائندگی کریں گے جب کہ حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی اعلیٰ مذاکراتی کونسل کے سربراہ بھی بات چیت میں شریک ہیں۔
تاہم طالبان کے سیاسی امور کے ترجمان سہیل شا ھین کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے نمائندے بشمول افغان ہائی پیس کونسل کے سربراہ کریم خلیلی ماسکو کانفرنس کےبدھ کو ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
سہیل شاھین نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ماسکو کانفرنس کے منگل کو ہونے والا اجلاس روس اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات کے ایک سو سال مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقد ہو ا جس میں کابل حکومت کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بد ھ کو ہونے والے اجلاس میں کریم خلیلی اور روس میں افغانستان کے سفیر شرکت نہیں کریں گے۔
دوسری طرف جمعےکو کابل میں ہونے والے افغان علما کے ایک اجلاس میں اس توقع کا اظہار کیا گیا ہے کہ ماسکو میں ہونے والی کانفرنس عید الفطر کے موقع پر افغانستان میں متحارب فریقین کے درمیان جنگ بندی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ اٖفغان علما نے متحارب فریقین سے عسکری کارروائیاں روکنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ افغانستان میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہو سکے۔
یاد رہے کہ افغان صدر اشرف غنی متعدد بار طالبان کو جنگ بندی کی پیش کش کر چکے ہیں لیکن طالبان اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کرتے آرہے ہیں۔