امریکی محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ طالبان افغان قیادت میں ہونے والے مذاکرات پر تیار نہیں۔ لیکن، ترجمان نے توقع کا اظہار کیا کہ جلد طالبان اس پر رضامند ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں، ہیدر نوئرٹ نے منگل کے روز اخباری بریفینگ میں بتایا کہ محکمے کی نظر طالبان کے جاری کردہ مراسلے پر پڑی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’’کسی بھی امن بات چیت کے لیے لازم ہے کہ یہ افغان سربراہی اور قیادت میں ہو۔ بد قسمتی سے فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ طالبان مل بیٹھ کر امن بات چیت‘‘ کو تسلیم کرنے پر تیار ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ایک طویل عرصے سے یہی ہماری پالیسی رہی ہے‘‘، اور یہ کہ ’’بدقسمتی سے اس مرحلے پر طالبان امن بات چیت کے لیے مل بیٹھ کر گفتگو پر تیار نہیں لگتے‘‘۔
نوئرٹ نے واضح طور پر کہا کہ ’’افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ بی الآخر یہ سیاسی حل ہوگا۔ اور یہ اسی وقت ہوگا جب طالبان مل بیٹھیں اور بات چیت کریں۔ یہی بہترین طریقہ ہے جس سے افغانستان میں امن آئے گا‘‘۔
بدھ کے روز کابل میں شروع ہونے والی بین الاقوامی افغان امن کانفرنس کے بارے میں، بریفنگ کے آغاز پر اپنے کلمات میں، ترجمان نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اجلاس میں امن، سلامتی اور آپسی روابط سے متعلق موضوعات پر کھل کر بات کرنے کا موقع میسر آئے گا۔
ترجمان نے کہا کہ امن کے حصول کے حوالے سے یہ افغان قیادت کی ایک قابل ستائش کاوش ہے، جس کے نتیجے میں امن کے قیام میں مدد ملے گی۔
ہیدر نوئرٹ نے افغان عوام کی قوت برداشت اور عزم کو سراہا، جنھوں نے طویل مدت سے متعدد مہلک حملوں کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے۔
کشمیر سے متعلق ایک سوال پر، ترجمان نے کہا کہ ’’ضرورت اس بات کی ہے دونوں فریق مل بیٹھیں اور بات چیت کریں‘‘۔ اخباری نمائندے کے مطابق، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کشمیر کے معاملے کے حل کے لیے مصالحت کی پیش کش کی ہے، اور یہ کہ اس پر محکمہٴ خارجہ کا رد عمل کیا ہوگا۔
اس سے قبل اپنے ابتدائی بیان میں، ترجمان نے بتایا کہ منگل کے روز کابل میں چوتھا امریکہ، بھارت اور افغانستان سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا جس میں آپسی تعاون کو فروغ دینے، امن و استحکام کے امور اور افغانستان کی ترقی و خوشحالی پر گفت و شنید ہوئی، جس میں تینوں ملکوں کے وفود نے تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ اگلا سہ فریقی اجلاس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر میں ہونے والے اجلاس کے دوران نیو یارک میں ہوگا۔