صدر حامد کرزئی نے امریکہ کے ساتھ افغانستان کے مستقبل کے تعلقات کا تصور پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی کے لیے مجوزہ دوطرفہ اسٹریٹیجک معاہدے کی توثیق کریں گے بشرطیکہ اس میں قومی خود مختاری کے احترام اور رات کے وقت چھاپہ مار کارروائیوں میں افغانوں کے گھروں کی تلاشی اور اُن کی حراست کا سلسلہ بند کرنے کی ضمانت دی جائے۔
کابل میں بدھ کو ایک بڑے قومی جرگے سے افتتاحی خطاب میں قبائلی و سیاسی رہنماؤں سے اُنھوں نے کہا ’’وہ (امریکی) ہماری فوجی تنصیبات کو استعمال کرنا چاہتے ہیں جو اس ملک میں اُن کا بہترین مفاد ہے اور یہاں ہمارے اپنے بھی مفادات ہیں۔ اگر ہمارے اور اُن کے مفادات میں کہیں تصادم ہوتا ہے تو ہمیں پختہ عزم کے ساتھ انکار کر دینا چاہیے۔‘‘
تاہم امریکی فوجی اڈوں کی حمایت کرتے ہوئے صدر کرزئی نے کہا کہ ان سے افغانستان کو مالی فوائد بھی حاصل ہوں گے اور مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔
امریکہ اور بین الاقوامی افواج کی اکثریت 2014ء کے آخر تک افغانستان سے واپس چلی جائے گی لیکن اس کے بعد بھی امریکی فوجیوں کی ایک نمایاں تعداد ملک میں موجود رہے گی اور مجوزہ اسٹریٹیجک معاہدے کا مقصد ان غیر ملکی فوجیوں کے اختیارات کے لیے قواعد و ضوابط وضع کرنا ہے۔
افغان صدر نے جرگہ کے مندوبین سے کہا ہے کہ وہ قیام امن اور امریکہ کےساتھ مستقبل میں افغانستان کے تعلقات کی نوعیت کا تعین کرنے کے لیے ایک بنیادی ڈھانچہ تشکیل دینے میں حکومت کی مدد کریں۔
چار روزہ لویہ جرگے میں طالبان عسکریت پسندوں سے بات چیت کے امکانات اور اس حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت بھی زیر بحث آئے گی۔
اس روایتی اجلاس میں معاشرے کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے 2,000 سے زائد رہنما و عمائدین شرکت کر رہے ہیں۔ اس موقع پرافغان دارالحکومت میں سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں اور جرگے میں شرکت کرنے والوں کی جگہ جگہ تلاشی لی جا رہی ہے۔
طالبان عسکریت پسندوں نے جرگے پر حملے کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ حفاظتی اقدامات کے لیے تیار کردہ سرکاری نقشے اور دستاویزات اُن کے ہاتھ لگ چکی ہیں۔ لیکن افغان اور نیٹو حکام نے ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
صدر کرزئی نے جرگے کے مندوبین پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے لیے بین الاقوامی مدد کی ضرورت اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر بھی غور کریں کہ اپنے ملک کے لیے قواعد و ضوابط کا تعین خود افغان کریں۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ افغان اپنی حکومت کے متوازی ڈھانچے نہیں چاہتے۔
صدر کرزئی نے اپنے خطاب میں افغانستان کو ایک عمر رسیدہ شیر سےتشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں اب بھی طاقت باقی ہے جس پر حاضرین نے زوردار قہقہے اور تالیاں بجائیں۔ ’’اگر وہ مضبوط، امیر اور طاقتور ہیں توکیا ہوا، ہم بھی شیر ہیں۔ کمزور اور بوڑھا اور بیمار سہی مگر شیر پھر بھی شیر ہوتا ہے۔ شیر اپنے گھر میں کسی اجنبی کی آمد کو پسند نہیں کرتا۔ وہ نہیں چاہتا کہ رات کے وقت غیر ملکی اس کے بچوں کو لےجائیں، شیر حکومت کے متوازی ڈھانچے نہیں چاہتا۔‘‘
اس وقت افغانستان میں اندازاََ ایک لاکھ امریکی فوجی تعینات ہیں جو بنا کسی دو طرفہ معاہدے کے ملک میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی اکثریت اقوام متحدہ کے دیے گئے اختیارات کے تحت افغانستان میں موجود ہے۔
صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ افغان حکومت فرانس، برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین کے ساتھ بھی شراکت داری کے معاہدوں پر بات چیت کر رہی ہے لیکن امریکہ کے ساتھ معاہدے کے لیے قبائلی رہنماؤں کا مشورہ زیادہ ضروری ہے کیونکہ اُس کی فوجیں بہت بڑی تعداد میں ملک میں موجود ہیں۔
ملک کے سابق وزیر خارجہ اور سابق صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ سمیت کئی اہم رہنماؤں نے جرگے کا بائیکاٹ کیا ہے کیونکہ اُن کے خیال میں پارلیمان کی موجودگی میں افغانستان کا آئین قومی امور پر ایسے اجلاسوں کی اجازت نہیں دیتا۔ مزید برآں ان کا الزام ہے کہ صدر کرزئی لویہ جرگہ کے ذریعے آئین میں ترمیم کر کے تیسری مرتبہ ملک کے صدر بننا چاہتے ہیں۔
لیکن افتتاحی اجلاس سے خطاب میں افغان صدر نے ان خدشات اور الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے رد کیا اور کہا کہ جرگے میں صرف اور صرف امریکہ کے ساتھ معاہدے اورعسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت کے امکانات پر بحث ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ اجلاس محض ایک مشاورتی عمل ہے۔