افغانستان کی فضائی فورس کی پہلی خاتون پائلٹ نے امریکہ میں پناہ کی درخواست کر رکھی ہے اور اب وہ متعلقہ اداروں کی طرف سے جواب کی منتظر ہیں۔
اُن کے وکیل کے مطابق افغان پائلٹ نیلوفر رحمانی نے طالبان کی دھمکیوں کے بعد گزشتہ ماہ امریکہ میں پناہ کی درخواست دی تھی۔
وہ امریکہ میں تربیتی کورس پر گئی تھیں جہاں اُنھوں نے پناہ کی درخواست دی۔
اُن کے وکیل کمبیرلی موٹلی نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا کہ نیلوفر نے ’’اس بنا پر امریکہ میں پناہ کی درخواست کی کیوں کہ اُنھیں خوف ہے کہ اگر وہ واپس گئیں تو اُنھیں ہدف بنایا جا سکتا ہے۔‘‘
وکیل کا کہنا تھا کہ طالبان نے نیلوفر رحمانی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی اور اُن کے بقول اب افغان خاتون پائلٹ حکومت کے فیصلے سے بھی پریشان ہے کیوں کہ افغان وزارت دفاع نے کہا ہے کہ جب وہ واپسی آئیں تو اُن کے خلاف فضائی فورس سے ’’بھگوڑا ہونے کی کوشش پر کارروائی کی جائے گی۔‘‘
25 سالہ نیلوفر رحمانی کا کہنا ہے اُنھیں دھمکیاں دی گئیں کہ وہ فوج سے الگ ہو جائیں اور یہ دھمکیاں اُسی شدت پسند گروپ کی طرف سے دی گئیں جنہوں نے پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔
نیلوفر رحمانی نے امریکہ میں 18 ماہ کی تربیت مکمل کرنے کے بعد اس ملک میں قیام کے لیے پناہ کی درخواست دی۔
افغان وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ نیلوفر رحمانی کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
جب کہ امریکہ میں پناہ لینے کی درخواست کے بعد افغانستان میں سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے بھی نیلوفر رحمانی کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔
افغان فوج نے بھی نیلوفر رحمانی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مسلح افواج کے افسران کو اس شعبے میں آنے سے قبل ممکنہ خطرات کو سمجھنا چاہیئے اور افغانستان میں خواتین کو بھی اتنا ہی خطرہ ہے جتنا کہ مردوں کو۔
افغان وزارت دفاع کے نائب ترجمان محمد ردمانش نے کہا کہ ’’جب ایک افسر عدم تحفظ کی شکایت کرے اور سلامتی کے خطرات سے خوفزدہ ہو تو پھر ایک عام شہری کیا کرے۔‘‘
واضح رہے کہ نیلوفر رحمانی کو 2015 میں امریکہ کے محکمہ خارجہ کی طرف سے ’’وویمن کریج‘‘ ایوارڈ سے نواز گیا تھا۔