افغانستان میں تعینات اتحادی افواج نے صوبہ کُنڑ کے سرحدی علاقوں پر پاکستانی افواج کی گولہ باری کے الزامات کی تصدیق یا تردید کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کی ہے کہ اس بارے میں فی الحال ’’ٹھوس ثبوت دستیاب نہیں ہیں‘‘۔
افغان دارالحکومت کابل میں پیر کو نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اتحادی افواج کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر دراندازی کے واقعات تسلسل سے ہو رہے ہیں۔
’’اور میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ اس بات سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ سرحدی علاقوں میں دونوں جانب عسکریت پسند تنظیمیں موجود ہیں۔‘‘
اُدھر وفاقی مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے پیر کو ایک بار پھر الزام لگا ہے کہ پاکستان مخالف جنگجوؤں کی افغان سر زمین پر محفوظ پناہ گاہیں ان کے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں بقول رحمٰن ملک کے حکومت پاکستان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ افغانستان اُس کا دوست ہے یا دشمن۔
’’افغانستان کو سوچنا ہوگا (کیوں) کہ ہم اتنی قربانیاں نہیں دے سکتے۔ لہذا اگر (وہ) دوست ہیں تو دوست کی طرح بن کر دیکھائیں اور جو کمک آ رہی ہے اس کو روکا جائے اور اگر کسی کو شک ہے تو ہم اس کے ثبوت افشاں کریں گے ... میں اُمید کرتا ہوں کہ افغان حکومت اس پر بھرپور توجہ دے گی اور ایسی کمک کو روکے گی جو ہمارے لوگوں کو شہید کر رہی ہے۔‘‘
مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بدامنی اور سرکاری افواج پر مہلک حملوں میں ملوث عسکری تنظیم ’بلوچستان لبریشن آرمی‘ کے جنگجو کمانڈروں نے بھی افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے جہاں سے وہ سیٹلائٹ فونز کے ذریعے اپنے ساتھیوں سے رابطے میں ہیں جس کے حکومت کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
پاکستان اور افغانستان نےحالیہ دنوں میں تواتر سے ایک دوسرے پر سرحدی خلاف ورزیوں کےالزمات لگائے ہیں جس سے تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے جب کہ مصبرین اس صورت حال کو خطے میں انسداد دہشت گردی کی مشترکہ کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔
اس کشیدگی کو کم کرنے اور سرحدوں پر فوجی رابطوں میں بہتری کے لیے دونوں ملکوں نے مستقبل قریب میں جلال آباد میں دونوں افواج کے اعلٰی حکام کا ایک اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
افغانستان کا الزام ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان نے سرحد پار مشرقی کنڑ صوبے کے کئی دیہاتوں پربھاری توپ خانے سے بمباری کی ہے اور تازہ ترین واقعہ جمعہ کی شب پیش آیا جس میں ایک خاتون سمیت چار افغان ہلاک جب کہ کئی دیگر شہری زخمی ہوگئے۔
افغان نائب وزیر خارجہ جاوید لودن نے اتوار کو کابل میں پاکستانی سفیر محمد صادق کے ساتھ وزارت خارجہ میں ہونے والی ملاقات میں سرحد پار بمباری پر افغان حکومت کی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ افغان دیہاتوں پر بمباری کا یہ سلسلہ جاری رہا تو دو طرفہ تعلقات پر اس کے نمایاں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
لیکن اتوار کی شب پاکستانی فوجی حکام نے افغان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرحد پرتعینات اُن کے سپاہی صرف اور صرف عسکریت پسندوں کی فائرنگ یا حملے کے جواب میں کارروائی کرتے ہیں۔
مزید برآں ان حکام کے بقول گزشتہ ایک سال کے دوران ضلع دیر اور چترال کے علاقوں میں سرحد پار سے آنے والے مسلح جنگجوؤں نے پاکستانی فوجی و شہری اہداف پر اب تک 15 حملے کیے ہیں جن میں 100 سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں حکومت پاکستان نے ان واقعات پر افغانستان کے ساتھ باضابطہ احتجاج اور نیٹو افواج کو اس بارے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔
افغان دارالحکومت کابل میں پیر کو نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اتحادی افواج کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر دراندازی کے واقعات تسلسل سے ہو رہے ہیں۔
’’اور میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ اس بات سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ سرحدی علاقوں میں دونوں جانب عسکریت پسند تنظیمیں موجود ہیں۔‘‘
اُدھر وفاقی مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے پیر کو ایک بار پھر الزام لگا ہے کہ پاکستان مخالف جنگجوؤں کی افغان سر زمین پر محفوظ پناہ گاہیں ان کے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں بقول رحمٰن ملک کے حکومت پاکستان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ افغانستان اُس کا دوست ہے یا دشمن۔
’’افغانستان کو سوچنا ہوگا (کیوں) کہ ہم اتنی قربانیاں نہیں دے سکتے۔ لہذا اگر (وہ) دوست ہیں تو دوست کی طرح بن کر دیکھائیں اور جو کمک آ رہی ہے اس کو روکا جائے اور اگر کسی کو شک ہے تو ہم اس کے ثبوت افشاں کریں گے ... میں اُمید کرتا ہوں کہ افغان حکومت اس پر بھرپور توجہ دے گی اور ایسی کمک کو روکے گی جو ہمارے لوگوں کو شہید کر رہی ہے۔‘‘
مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بدامنی اور سرکاری افواج پر مہلک حملوں میں ملوث عسکری تنظیم ’بلوچستان لبریشن آرمی‘ کے جنگجو کمانڈروں نے بھی افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے جہاں سے وہ سیٹلائٹ فونز کے ذریعے اپنے ساتھیوں سے رابطے میں ہیں جس کے حکومت کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
پاکستان اور افغانستان نےحالیہ دنوں میں تواتر سے ایک دوسرے پر سرحدی خلاف ورزیوں کےالزمات لگائے ہیں جس سے تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے جب کہ مصبرین اس صورت حال کو خطے میں انسداد دہشت گردی کی مشترکہ کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔
اُمید کرتا ہوں کہ افغان حکومت اس پر بھرپور توجہ دے گی اور ایسی کمک کو روکے گی جو ہمارے لوگوں کو شہید کر رہی ہے۔رحمٰن ملک
اس کشیدگی کو کم کرنے اور سرحدوں پر فوجی رابطوں میں بہتری کے لیے دونوں ملکوں نے مستقبل قریب میں جلال آباد میں دونوں افواج کے اعلٰی حکام کا ایک اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
افغانستان کا الزام ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان نے سرحد پار مشرقی کنڑ صوبے کے کئی دیہاتوں پربھاری توپ خانے سے بمباری کی ہے اور تازہ ترین واقعہ جمعہ کی شب پیش آیا جس میں ایک خاتون سمیت چار افغان ہلاک جب کہ کئی دیگر شہری زخمی ہوگئے۔
افغان نائب وزیر خارجہ جاوید لودن نے اتوار کو کابل میں پاکستانی سفیر محمد صادق کے ساتھ وزارت خارجہ میں ہونے والی ملاقات میں سرحد پار بمباری پر افغان حکومت کی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ افغان دیہاتوں پر بمباری کا یہ سلسلہ جاری رہا تو دو طرفہ تعلقات پر اس کے نمایاں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
لیکن اتوار کی شب پاکستانی فوجی حکام نے افغان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرحد پرتعینات اُن کے سپاہی صرف اور صرف عسکریت پسندوں کی فائرنگ یا حملے کے جواب میں کارروائی کرتے ہیں۔
مزید برآں ان حکام کے بقول گزشتہ ایک سال کے دوران ضلع دیر اور چترال کے علاقوں میں سرحد پار سے آنے والے مسلح جنگجوؤں نے پاکستانی فوجی و شہری اہداف پر اب تک 15 حملے کیے ہیں جن میں 100 سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں حکومت پاکستان نے ان واقعات پر افغانستان کے ساتھ باضابطہ احتجاج اور نیٹو افواج کو اس بارے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔