افغانستان کے سفیر نے مصالحتی عمل کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں پاکستان کے کردار کو سراہا ہے۔
اسلام آباد میں تعینات افغانستان کے سفیر جانان موسیٰ زئی نے منگل کو پاکستان کے صدر ممنون حسین سے ملاقات کی، جس میں دیگر اُمور کے علاوہ قیام امن کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان رابطے پر بات چیت کی گئی۔
سفیر جانان موسیٰ کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب طالبان اور افغانستان کی حکومت درمیان بات چیت کا آئندہ دور رواں ہفتے کے اواخر میں متوقع ہے۔
پاکستان کی میزبانی میں پہلی مرتبہ جولائی کے اوائل میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں ہوئی تھی، جس میں فریقین نے دوبارہ ملنے پر اتفاق کیا تھا۔
پہلے براہ راست رابطے میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی موجود تھے۔
سرکاری بیان کے مطابق پاکستان کے صدر ممنون حسین نے منگل کو افغان سفیر سے ملاقات میں کہا کہ باہمی اعتماد اور ہم آہنگی بڑھانے کے لیے پاکستان افغان قیادت سے تعمیری رابطے جاری رکھے ہوئے ہے۔
اُنھوں نے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے افغانستان کے صدر اشرف غنی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں میں بھی تیزی آئی ہے۔
صدر ممنون حسین نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ علمائے دین، قانون سازوں، طالب علموں اور خواتین کے وفود کا تبادلہ کیا جائے۔
افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان رابطے میں پاکستان کے کردار کو ناصرف افغان حکومت بلکہ امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک کی طرف سے بھی سراہا گیا۔
جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں امن کے لیے طالبان سے مذاکرات کے اس عمل کو خوش آئندہ آغاز قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس بات چیت کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں مبصرین کی جانب سے محتاط ردعمل سامنے آیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امن کے لیے رابطے کے باوجود افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں اور تازہ اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے ملک کے ایک شمالی ضلعی ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا ہے، افغان حکومت کے مطابق مزید کمک علاقے میں بھیج دی گئی ہے تاکہ شدت پسندوں کا قبضہ ختم کرایا جا سکے۔