افغانستان میں جاری کارروائیوں پر نظر رکھنے والے امریکی حکومت کے ایک ادارے نے پنٹاگان سے درخواست کی ہے کہ وہ افغان فوجیوں کے ہاتھوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی رپورٹ کو افشا کیا جائے۔
سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹریکشن ( ایس آئی جی اے آر) کی طرف سے کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ کو اس وجہ سے خفیہ رکھا جا رہا ہے کیونکہ اس میں دی گئی زیادہ تر معلومات کلاسیفائیڈ کے دائرے میں آتی ہیں۔ یہ رپورٹ حال ہی میں کانگریس کو جاری کی گئی ہے۔
ایس آئی جی اے آر کے مطابق افغان عہدے دار جنسی زیادتی کے واقعات سے مناسب طور پر نمٹنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور کچھ واقعات میں افغان حکومت نے گرفتاریاں کی ہیں اور جنسی زیادتیوں میں ملوث افراد کو سزائیں بھی دی ہیں۔
کانگریس کے لیے اس رپورٹ کے خاکے پر مبنی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ افغان عہدے دار جرائم میں بدستور حصے دار ہیں، خاص طور پر جنسی استحصال اور افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بچوں کی بھرتیوں کے حوالے سے۔
ایس آئی جی اے آر کے مطابق اب مسئلہ یہ تعین کرنا ہے کہ آیا امریکہ’ لے ہی قوانین ‘کی خلاف ورزی کو نظر انداز کرتا ہے جو امریکی اداروں کو انسانی حقوق سے متعلق اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے بیرونی ملکوں کے اداروں کی مدد اور معاونت سے روکتا ہے۔
محکمہ دفاع کے ایک ترجمان نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کو نفرت انگیز اور وحشیانہ قرار دیا ہے لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر معاملے سے الگ سے نمٹا جائے۔
ترجمان ایڈم سٹمپ نے کہا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہمیشہ سے ایک وحشیانہ جرم ہے اور یقینی طور پر انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی ہے، تاہم ہر واقعہ حقائق اور قانون کی روشنی میں پرکھنے کا تقاضا کرتا ہے کہ آیا یہ لے ہی قانون کے تحت انسانی حقوق کی وسیع تر خلاف ورزی کے ضمرے میں آتا ہے یا نہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مارچ سے أفغانستان میں تشدد کے واقعات میں 20 فی صد اضافہ ہوا ہے اور سن 2016 اور 2016 کے دوران ملک میں افیون کی پیداوار دو گنا ہو کر تین ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔