رسائی کے لنکس

توجہ کے ارتکاز میں کمی کا مرض اور علاج


توجہ کے ارتکاز میں کمی کا مرض اور علاج
توجہ کے ارتکاز میں کمی کا مرض اور علاج

دنیا کی تقریبا چار فیصد بالغ آبادی ایک ایسے مرض میں مبتلا ہے جس کے باعث وہ کسی چیز پر توجہ نہیں دے سکتے اور ہر کام سے ان کی طبعیت جلد اکتاجاتی ہے۔ اس مرض کو اے ڈی ایچ ڈی کہاجاتاہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق دنیا میں کم از کم ایک کروڑ افراد میں توجہ کی کمی کے مرض کی تشخص ہی نہیں ہو پاتی۔

کیا آپ ہمیشہ ہر جگہ دیر سے پہنچتے ہیں؟ کیا آپ ہر وقت خود کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں؟ کیا آپ کسی ایک جگہ زیادہ عرصے تک ملازمت نہیں کر پاتے؟ اور کیا آپ کو کوئی کام مقررہ وقت میں مکمل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ممکن ہے کہ آپ ADHDکے مرض میں مبتلا ہوں۔ یہ مرض بڑی عمر کے کئی افراد میں پایا جاتا ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق اس مرض پر قابو پانے میں دوا سے زیادہ نفسیاتی طریقہ علاج زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے ۔

برائن ہیرنگٹن توجہ کے ارتکاز میں کمی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں روز انہ اپنے ایک ہی معمول کو جاری رکھنے میں مشکل پیش آتی تھی ۔ پھر انہوں نے ایک نفسیاتی معالج لورا نوسے سے مشورہ کیا، جس سے انہیں فائدہ ہوا ہے۔

ہیرنگٹن دنیا کی اس تقریبا چار فیصد بالغ آبادی میں شامل ہیں جنہیں توجہ کی کمی کا مسئلہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق دنیا میں کم از کم ایک کروڑ افراد میں اے ڈی ایچ ڈی یا توجہ کی کمی کے مسئلے کی تشخص ہی نہیں ہو پاتی ۔ حالیہ سالوں میں ذہنی امراض کے ماہرین نے اس مرض میں مبتلا بچوں پر توجہ دینی شروع کر دی ہے ۔ تحقیق سے ظاہرہوا ہے کہ بعض کیسز میں اے ڈی ایچ ڈی کی علامات بڑے ہونے کے بعد بھی دور نہیں ہوتیں ۔

میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کے ڈاکٹر سٹیون سیفرن نےبڑی عمر کے 86 افراد پر ایک تحقیق کی ہے ، جن میں اس مرض کی علامات دوا کے استعمال کے باوجود جاری رہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دوائیں سب کچھ نہیں کرتیں ۔ وہ علامات کو کم تو کر سکتی ہیں مگر وہ لوگوں کو اپنی علامات پر قابو پانے کا طریقہ نہیں سکھاتیں ۔ اس کے لیے مختصر مدت کی سائیکو تھراپی یا نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا اصول یہ ہے کہ ہم جیسا محسوس کرتے ہیں ویسا ہی سوچتے بھی ہیں۔ اس تھراپی کے ذریعے مریضوں کو اپنے مسئلے حل کرنا، اور اپنے چھوٹے چھوٹے مقرر اہداف حاصل کرنا سکھایا جاتا ہے

ڈاکٹر سیفرن کہتے ہیں کہ اس طریقہ علاج کے ذریعے ہم نے مشکل صورتحال پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کرنےاور اپنے سب کام ٹائم ٹیبل بنا کر کرنے، ذہنی ارتکاز قائم رکھنے اور لمبے کاموں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے ان کی انجام دہی میں مدد فراہم کی۔

برائین ہیرنگٹن کہتے ہیں کہ انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ جب وہ اپنی توجہ کھونے لگیں تو کیسے صورتحال کو دوبارہ قابو میں لانا ہے ۔ اور اس تھراپی سے مجھے اپنے آپ کو سمجھنے میں مدد ملی کہ میری طاقت اور کمزوری کیا ہے ۔ لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ میں اب زیادہ کار آمد اور خوش انسان ہوں ۔

یہ تحقیق امیرکن میڈیکل ایسو سی ایشن کے جرنل میں شائع ہوئی ہے۔

XS
SM
MD
LG