پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان پاکستان کے ایوان بالا کی ایک کمیٹی کی طرف سے معلومات تک رسائی کے بل کی منظوری کو خوش آئند تو قرار دے رہے ہیں لیکن ان کے بقول قوانین کی صحیح معنوں میں پاسداری کو یقینی بنانے جیسے اقدام کے بغیر حوصلہ افزا نتائج کا زیادہ امکان نہیں۔
منگل کو سینیٹ کی ایک خصوصی کمیٹی نے معلومات تک رسائی کے بل کا شق وار جائزہ لیتے ہوئے اس پر سیرحاصل بحث کے بعد متفقہ طور پر اسے منظور کر لیا۔
یہ بل پارلیمان سے منظوری کے بعد معلومات تک رسائی کے آرڈیننس مجریہ 2002ء کی جگہ لے گا۔
منظور کیے گئے مسودہ قانون کے مطابق کسی بھی لاپتا شخص کے بارے میں معلومات کے لیے درخواست جمع کروائے جانے کے تین دن کے اندر متعلقہ حکام اس بابت تفصیل فراہم کریں گے۔
مزید برآں کسی بھی معلومات کو قومی سلامتی کا معاملہ قرار دے کر اگر افشا نہیں کیا جاتا تو اس بارے میں بھی متعلقہ ادارے کے حکام کو تحریری طور پر وضاحت پیش کرنا ہوگی۔
پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک عرصے سے چلا آرہا ہے جن میں اکثر کا الزام لواحقین سکیورٹی اداروں پر عائد کرتے ہیں۔ لیکن حکام ایسے دعوؤں کو مسترد کرتے آئے ہیں۔
سینیئر قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی عہدیدار غلط بیانی سے کام لیتا ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔
"کوئی ایسا لائحہ عمل وضع کیا جانا چاہیے جو ان اداروں یا عہدیداروں کو پابند کرے۔۔۔ہمیں اس بات پر تحفظات ہیں کہ ادارے بات چھپاتے ہیں یا بتاتے نہیں۔ ممکن ہے جن لوگوں کو تحویل میں لیا جاتا ہے وہ (کسی سرگرمی میں) ملوث بھی ہوں لیکن اگر ان کو آپ نے تحویل میں لینا بھی ہے تو قانون کے مطابق کریں۔"
اس بل میں ایسے افراد کو تحفظ دینے کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو حکومتی اور سکیورٹی اداروں کی کسی بدعنوانی کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ بل کے مطابق ایسے افراد کو ان معلومات کی بنیاد پر بننے والے مقدمات سے استثنیٰ دیا جائے گا۔
انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں کہ مسودہ قانون کی منظوری معلومات تک شہریوں کی رسائی کے ضمن میں ایک خوش آئند مگر ابتدائی پیش رفت ہے۔
"لوگوں کے قانونی حقوق تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، طرز حکمرانی اتنی خراب ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اس کا فائدہ نہیں مل رہا مگر میں سمجھتی ہوں کہ (بل کا) نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔ کم ازکم لوگوں کو قانونی حق تو ملے گا کہ وہ ریاستی اداروں سے حکومت سے جواب طلبی کر سکیں۔"
سینیٹ کی کمیٹی سے منظور ہونے والے مسودہ قانون کے مطابق معلومات تک رسائی کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کی سماعت کے لیے ایک تین رکنی کمیشن ترتیب دیا جائے گا جو متعلقہ اداروں کو معلومات فراہم کرنے کا حکم دینے کا مجاز ہوگا۔
اس کمیشن کے ارکان کا تقرر وزیراعظم کریں گے جن میں متوقع طور پر سول سوسائٹی، بیورکریسی اور عدلیہ سے ایک، ایک رکن شامل کیا جائے گا۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو کمیشن کے کسی بھی رکن کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔