رسائی کے لنکس

رواں سال کئی افریقی ممالک بھوک کا شکار رہے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اقوم متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کا کہنا ہے کہ افریقہ کے زیرِیں صحارا  کا علاقہ دنیا میں بھوک کا سب سے زیادہ شکار خطہ ہے جہاں ہر چار میں سے ایک شخص غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں، شورش اور غربت کا شکار کئی افریقی ممالک کو رواں سال کروڑوں کی تعداد میں غربت کا شکار لوگوں کی وجہ مشکل صورت حال کا سامنا رہا۔

حالیہ مہینوں میں کئی ایک ممالک، جن میں جنوبی سوڈان، ملاوی اورجمہوریہ وسطی افریقہ شامل ہیں، میں بھوک کے خطرے کا اظہار کیا گیا۔ جنوبی اور مشرقی افریقہ کے کئی ممالک کو مسلسل دوسری بار خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ جمہوریہ وسطی افریقہ، سوڈان جیسے دیگر ممالک شورش اور لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ سے مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔

اقوم متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کا کہنا ہے کہ افریقہ کے زیرِیں صحارا کا علاقہ دنیا میں بھوک کا سب سے زیادہ شکار خطہ ہے جہاں ہر چار میں سے ایک شخص غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔ افریقہ میں ہر روز تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ بچے بھوکے اسکول جاتے ہیں۔

عالمی ادارہ خوراک کے ایک عہدیدار ڈیوڈ آر نے کہا کہ زیریں افریقہ کا نصف جہاں موسم کا بھی ایک بڑا دخل ہے، کے لیے 2015 غیر معمولی طور پر ایک مشکل سال رہا۔

دوسری طرف افریقی حکومتوں کا کہنا ہے کہ انہیں بھی ایک اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور بھوک کا بحران ان کی بھی ناکامی ہے۔ ملاوی کے وزیر خزانہ نے اس سال اپنے ملک کی بھوک کی صورت حال کو ایک اسکینڈل قرار دیتے ہوئے مزید اقدمات کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اتیھوپیا میں حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے 19 کروڑ 20 لاکھ ڈالر مختص کیے ہیں جہاں یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ وہاں شدید خشک سالی کی وجہ سے آئندہ سال تقریباً ایک کروڑ افراد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بین الاقوامی فلاحی تنظیم سیو دی چلڈرن کے ایتھوپیا میں سربراہ جان گراہم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افریقی حکومتوں کو زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے بقول بین الاقوامی امدادی اداروں کے بجٹ پردنیا کے دیگر علاقوں کو درپیش بحرانوں کی وجہ سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

دوسری طرف افریقہ کے جنوبی سوڈان جیسے ملکوں میں یہ معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہاں پر دو سال تک جاری رہنے والے سفاکانہ تنازع کی وجہ سے لاکھوں افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امدادی ادارے اپنے طور پر اتنا ہی کر سکتے ہیں جتنا ممکن ہے جبکہ ہر کوئی یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ ایک مشکل اور طویل عمل ہے لیکن اگر وہ جو کچھ 2015 میں ہوا اس کے دوبارہ رونما ہونے سے بچنا چاہتے ہیں تو حکومتوں اور امدادی اداروں کو اس سے نمٹنے کی ضروت ہے۔

XS
SM
MD
LG