بچوں کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ مشرقی اور جنوبی افریقہ میں ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد بچے اس سال آنے والے ’ایل نینو‘ کے باعث بھوک، بیماری اور پانی کی کمی کے خطرے سے دوچار ہوجائیں گے۔
متوقع ’ایل نینو‘ کے باعث، افریقہ کے ممالک، کینیا اور یوگینڈا میں بدترین سیلاب آسکتا ہے، تو دوسری جانب، جنوبی افریقہ اور ملاوی، جو پہلے ہی خشک سالی کا شکار ہیں، مزید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے جل کریگ نے ’ایل نینو‘ اور اس کے افریقی ممالک پر پڑنے والے اثرات کا قریبی جائزہ لیا ہے۔ کینیا کے محکمہٴموسمیات کے پاس 1997ء اور 1998ء میں آنے والے ’ایل نینو‘ کا ریکارڈ موجود ہے، جو 1950ء کے بعد آنے والا نہایت ہی طاقتور ’ایل نینو‘ تھا، جس کے دوران پورے ملک میں مسلسل موسلا دھار بارشیں ہوئی تھیں اور ملک بھر کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا تھا۔
واشنگٹن میں سمندروں اور ماحولیات سے متعلق قومی ادارے، ’این او اے اے‘ کے ماہر موسمیات کے مطابق، 2015ء میں بھی ’ایل نینو‘ کا خدشہ موجود ہے، جو بحرالکاحل کے علاقے کے لئے ایک وارننگ کا درجہ رکھتا ہے۔
ایل نینو کے دوران، مشرقی افریقی ممالک میں موسلا دھار بارشوں کا امکان ہے جبکہ جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں خشک سالی ہو سکتی ہے۔
ماہرین موسمیات کے مطابق، ’ایل نینو‘ کے دوران، موسمیاتی صورتحال تبدیل ہو جاتی ہے، بحرہند کی سطح گرم ہونے کی وجہ سے یہاں سے اٹھنے والی گرم بھاپ مشرقی افریقہ پر اثرانداز ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں، اس علاقے میں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ لیکن، جنوب میں ہوا میں نمی کا تناسب کم ہوجاتا ہے اور اس طرح یہ علاقہ خشک سالی کا شکار ہوجاتا ہے۔
تاہم، پیشگوئی ہمیشہ درست ثابت نہیں ہوتی۔ سنہ1997 میں، جنوبی افریقہ میں خشک سالی کی توقع کی جا رہی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ماہرین کے مطابق، ’ایل نینو‘ تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود، فائدہ مند بھی ہے، جیسے شمال مشرقی کینیا میں جو ہمیشہ خشک سالی کا شکار رہا ہے، بارش کا امکان ہے اور لوگ وہاں ڈیم تعمیر کرکے اس میں پانی کو محفوظ بناسکتے ہیں۔
ماہر موسمیات، ڈی لیبروتو کے مطابق، اس سال تیسرا بڑا ’ایل نینو‘ آسکتا ہے۔ لیکن، اس کا تجزیہ 2016ء کے اوائل تک ہی ممکن ہے، جب تمام اعداد و شمار حاصل کرلئے جائیں گے۔