اسلام آباد میں احتساب عدالت کے اندر اور باہر ہنگامہ آرائی کے باعث نیب ریفرنسز میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی۔ کیس کی سماعت کسی کارروائی کے بغیر 19 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔
جمعے کو سماعت کے موقع پر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوئے جب کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کے نمائندے ظافر خان پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت کمرۂ عدالت میں موجود وکلا نے نعرے بازی شروع کردی جس پر جج محمد بشیر عدالت سے اٹھ کر چلے گئے اورسماعت 19 اکتوبر جمعرات تک ملتوی کردی۔
احتساب عدالت میں جمعے کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داما کیپٹن(ر) صفدر کے خلاف فردِ جرم عائد ہونا تھی۔
عدالت پہنچنے پر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ ٓصف کرمانی، دانیال عزیز اور عابد شیر علی سمیت مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنما بھی موجود تھے۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور وکلا نے بھی عدالت میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انہیں روک دیا گیا جس پر وہ مشتعل ہوگئے اور ان کی پولیس سے ہاتھا پائی ہوئی۔ اس موقع پر پولیس نے وکلا پر ہلکا لاٹھی چارج بھی کیا۔
بعد ازاں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب ریفرنسز کی سماعت شروع کی تو (ن) لیگ لائرز فورم کے بیرسٹر جہانگیر جدون اور ملک صدیق اعوان نے جج محمد بشیر کو بتایا کہ پولیس نے وکلا پر تشدد کیا ہے جس پر پولیس افسران کو فوراً عدالت طلب کیا جائے۔
اس موقع پر جج نے وکلا کو تحریری درخواست جمع کرانے کا کہا تاہم ن لیگ لائرز فورم کے وکلا نے کہا کہ اگر ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف فوری ایکشن نہ ہوا تو عدالتی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔
مشتعل وکلا نے کمرۂ عدالت میں ہنگامہ آرائی کی۔ اس موقع پر نیب پراسیکیوشن ٹیم کے ساتھ وکلا کی تلخ کلامی بھی ہوئی اور نیب پراسیکیوٹر کو ڈائس سے ہٹانے کے لیے مشتعل وکلا نے انہیں دھکے دیے۔
جج نے کشیدگی کے پیشِ نظر نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف فردِ جرم کی کارروائی 19 اکتوبر تک مؤخر کر دی جبکہ نوازشریف کو دو ریفرنسز میں 50، 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
احتساب عدالت کے جج نے آئی جی اسلام آباد پولیس کو وکلا پر تشدد اور جوڈیشل کمپلیکس داخلے سے روکنے کی تحقیقات کا حکم بھی دیا ہے۔
مریم نواز نے احتساب عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں وکلا اور اہلکاروں کے درمیان جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ وکلا کو اجازت تھی لیکن انہیں عدالت کے اندر نہیں آنے دیا گیا، وزارت داخلہ آج کے واقعے کی تحقیقات کرائے۔
نواز شریف، حسن اور حسین نواز پارک لین اپارٹمنٹس، عزیزیہ اسٹیل ملز اور آف شور کمپنیوں کے ریفرنسز میں جبکہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر صرف پارک لین اپارٹمنٹس میں نامزد ملزم ہیں۔
عدالت کے باہر چسپاں کیے گئے ایک اشتہار میں کہا گیا ہے کہ حسن اور حسین نواز اگر ایک ماہ کے اندر احتساب عدالت میں پیش نہ ہوئے تو انہیں اشتہاری قرار دے کر دائمی وارنٹ جاری کر دیے جائیں گے۔
گزشتہ سماعت پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی پیشی پر احتساب عدالت کے جج نے کہا تھا کہ ایک ملزم آتا ہے، دوسرا جاتا ہے، اسی لیے غیر حاضر ملزمان کا کیس الگ کر ر ہے ہیں۔
جمعے کو بھی سماعت کے موقع پر احتساب عدالت کے گرد سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے اور عدالت کے ارد گرد پولیس، اسپیشل برانچ، ٹریفک پولیس اور ایف سی کے 1100 جوان تعینات تھے۔