جمعیت علما اسلام (ف) کا 'آزادی مارچ' 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچنا ہے لیکن اس سے قبل اس کے رضا کاروں نے ابھی سے تربیت شروع کردی ہے۔
خاکی رنگ کے لباس میں ملبوس انصار الاسلام نامی اس سیکیورٹی ٹیم پر حکومت نے مقدمات درج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن اس وقت پشاور میں ہیں جہاں رنگ روڈ پشاور کے قریب انہوں نے رضاکاروں کی تربیت کا معائنہ کیا۔ اس 'تربیتی سیشن' کی تصاویر اس وقت سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں اور ان پر مختلف تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
ان تصاویر میں سیکڑوں کی تعداد میں خاکی شلوار قمیض میں ملبوس نوجوان ایک ترتیب کے ساتھ ایک وسیع میدان میں موجود ہیں۔ ڈنڈوں اور جھنڈوں سے لیس ان نوجوانوں نے پریڈ کے انداز میں مارچ کیا اور مولانا فضل الرحمن کو سلامی بھی دی۔
جمیعت علمائے اسلام کے مطابق انصار الاسلام کے ان سیکیورٹی رضاکاروں کی تعداد 12 ہزار سے زائد تھی جو آزادی مارچ کے دوران سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دیں گے۔
جمعیت علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں سے ایسے ہی پندرہ پندرہ ہزار رضاکار آزادی مارچ کے دوران سیکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔
اس حوالے سے خیبر پختونخواہ کے وزیرِ اطلاعات شوکت یوسف زئی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کے غیر قانونی اقدام کے خلاف ایکشن ہوگا۔ وہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے سے دور رہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی ملیشیا بنالی ہے جس کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ڈنڈا بردار مجمع دکھا کر سیاست نہیں ہوتی۔ علماء سے اپیل ہے بچوں کو سیاست کے لیے استعمال نہ کریں۔
شوکت یوسف زئی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن اقتدار کے بغیر مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ وہ اداروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس کام میں مدارس کے بچوں کو بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
آزادی مارچ کے رضاکاروں سے خطاب میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ آئین و قانون کا ساتھ دیا ہے اور آج بھی آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملک کے تمام ادارے اگر آئین کی پاسداری کریں گے تو پھر کوئی جھگڑا نہیں ہو گا۔ ہمارے مینڈیٹ پر جو ڈاکہ ڈالے گا اس کے خلاف جدوجہد کریں گے۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہم پر امن لوگ ہیں ہمیں نہ چھیڑا جائے۔ اگر ہمیں چھیڑا گیا تو پھر آپ گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا میدان سیاسی ہے اور عوام کے پاس جانا جمہوریت ہے۔ آج تک ہمارے کسی کارکن نے ماورائے آئین کوئی کام نہیں کیا۔ پوری دنیا میں مذہبی طبقے کو اشتعال دلا کر ریاست کے مقابل کھڑا کیا گیا، مگر پاکستان کے نوجوان نے آئین کا ساتھ دیا، ہم آج بھی اس ملک کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے لیے ان کارکنوں نے ہزاروں کی تعداد میں ڈنڈے جمع کر رکھے ہیں جو انصار الاسلام کے کارکنوں کے پاس ہوں گے۔ ان ڈنڈوں پر جمعیت علمائے اسلام کے جھنڈے کی طرز پر سفید اور کالے رنگ کی پٹیاں بنائی گئی ہیں۔
تجزیہ کار اور استاد پروفیسر ڈاکٹر شاہد اقبال کامران کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کی تمام تر توجہ اس وقت اس بات پر ہے کہ کس طرح حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے۔ تاہم دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے اب تک انہیں وہ حمایت نہیں ملی جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔
شاہد اقبال کامران کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کا اس حکومت کے خلاف غصہ عمران خان، ان کے خلاف ہتک آمیز تقاریر کر کے پہلے ہی بڑھا چکے تھے، جن میں انہیں مختلف القاب سے نوازا جاتا تھا۔ اب فی الحال عمران خان تو خاموش ہیں، لیکن ان کے وزرا اور پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم ابھی تک اسی روش پر قائم ہے اور لگاتار ان کی ہتک کر رہی ہے جو جلتی ہوئی آگ پر پٹرول کا کام کر رہی ہے۔
ڈنڈا بردار افراد کی تصاویر اور فوٹیجز پر ان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کی جماعت بہت منظم ہے۔ ان کے پاس صرف یہی سیکیورٹی کے انصار الاسلام نہیں بلکہ مدارس میں وسیع انتظامات کا تجربہ رکھنے کی وجہ سے ہزاروں افراد کے لیے بیک وقت کھانے پینے کی فراہمی اور طبی سہولیات کا انتظام بھی ہے۔
اُن کے بقول، ان انتظامات کی جھلک حکومت کو دکھانا دباؤ میں لانے کی کوشش ہے اور حکومت ان سب باتوں کا اثر بھی لے رہی ہے، لیکن 'معاملات کسی اور جگہ سے ٹھیک ہو جائیں گے۔'