جمعے کو نیو یارک میں یو ایس کورٹ آف اپیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپیل کی سماعت ہوئی۔ تین ججوں کے پینل نے ستمبر 2010 کے اس فیصلے کے خلاف اپیل سنی، جِس میں انہیں افغانستان میں امریکی فوج اور ایف بی آئی کے اہلکاروں پر قاتلانہ حملہ کرنے کے جرم میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اپیل کا فیصلہ آنے میں چند ہفتے سے لے کر چند ماہ تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
سماعت کے دوران کمرہٴ عدالت کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، جِس میں زیادہ تعداد ڈاکٹر صدیقی کے حامی نوجوانوں کی تھی۔ لوگوں کو عدالت میں داخل ہونے کے لیے ایک گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔
ڈاکٹر صدیقی نے اپنا ابتدائی مقدمہ ہارنے کے بعد کمرہ عدالت میں کہا تھا کہ وہ اپیل کا حق استعمال کرنا چاہتی ہیں، لیکن اس کے ایک ماہ بعد ہی انہوں نے ایک خط لکھا تھاجس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپیل کے حق سے دستبردار ہوتی ہیں۔
اس کے باوجود عدالت کی طرف سے نامزد وکیل ڈان کارڈی نے اپریل 2011 میں ان کے حق میں اپیل یہ کہہ کر دائر کر دی تھی کہ یہ ان کی ذمّہ داری ہے۔
امریکہ کی معروف درسگاہوں میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یا ایم آئی ٹی اور بریننڈائس یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ نیو رو سائنسدان ڈاکٹر صدیقی کو 2008 میں افغانستان کے صوبے غزنی کے ایک بازار سے افغان پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ صوبے کے گورنر کی رہائش گاہ کے آس پاس مشکوک حالت میں پائی گئی تھیں اور گرفتاری کے وقت ان کے پرس میں سے بم بنانے کے نسخے، شیشے کے جار میں کچھ کیمیائی مادّے، نیو یارک شہر کے مشہور مقامات کے نقشے اور کچھ اور مشکوک اشیاء برآمد ہوئی تھیں۔
اگلے روز جب امریکی فوج اور ایف بی آئی کے اہلکار اُن سے تفتیش کرنے افغان پولیس سٹیشن پہنچے، تو انہیں ایک ایسے کمرے میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر صدیقی ایک پردے کے پیچھے بیٹھی تھیں۔ استغاثہ کے مطابق ایک امریکی فوجی نے اپنی رائفل زمین پر رکھی تو ڈاکٹر صدیقی نے اسے اٹھا کر امریکیوں پرحملہ کر دیا اور جوابی فائرنگ میں خود بھی زخمی ہو گئیں۔ اس کے بعد انہیں افغانستان سے نیو یارک منتقل کر دیا گیا جہاں ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔
مقدمے میں سزا کے بعد جج نے انہیں ٹیکساس کی ایک ایسی جیل میں رکھنے کی ہدایت دی جہاں ان کا ذہنی علاج بھی کیا جا سکے۔
ابتدا میں ڈاکٹر صدیقی کے مقدمے کی پیروی پانچ وکیلوں نے کی تھی جن میں سے تین کے اخراجات حکومتِ پاکستان نے ادا کیے تھے اور اِس کے لیے 20 لاکھ ڈالر مختص کیے گئے تھے۔ ابتدائی مقدمے کے بعد اب حکومت پاکستان اپیل کے لیے ان کے قانونی اخراجات برداشت نہیں کر رہی۔ البتہ، حال ہی میں امریکہ میں پاکستان کی نئی سفیر شیری رحمان نے ڈاکٹر صدیقی کے خاندان کی وکیل ٹینا فوسٹر سے ملاقات کی تھی اور ان کے مقدمے اور ان کی ذاتی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔
ڈاکٹر صدیقی 2008ء میں منظر عام پر آنے سے قبل پانچ سال غائب رہی تھیں۔ ان کے خاندان والوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انہیں 2003ء میں ان کے تین بچوں سمیت پاکستان سےاغوا کیا گیا تھا اور امریکی حراست میں ان پر تشدد کیا گیا، جِس سے اُن کی ذہنی حالت خراب ہو گئی ہے۔ جبکہ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صدیقی القاعدہ کی رکن اور گیارہ ستمبر کے حملوں کے ماسٹر مائینڈ خالد شیخ محمد کے ایک رشتہ دار کی اہلیہ ہیں اور خالد شیخ سے تفتیش کے دوران ان کا نام سامنے آیا تھا، جس کے بعد وہ اپنے بچوں کو لے کر 2003ء میں روپوش ہو گئی تھیں۔