رسائی کے لنکس

اسرائیل پر حماس کے حملے کی پہلی برسی، متاثرین کس حال میں ہیں


October 7 Israel
October 7 Israel
  • 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کو ایک سال ہو گیا ہے۔
  • اس حملے میں 1200 افراد ہلاک اور 250 یرغمال بنا لیے گئے تھے۔
  • حملے کے متاثرین کے ذہنوں میں تلخ یادیں اب بھی تازہ ہیں۔
  • بچوں سمیت بہت سے لوگ اب بھی وہ دن یاد کر سہم جاتے ہیں۔
  • اس حملے میں ایک لاکھ 20 ہزار اسرائیلی بے گھر ہو گئے تھے جو اب رفتہ رفتہ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔
  • واپس آنے والوں کو تباہ حال گھر اور بستیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
  • اسرائیل کی جوابی کارروائی میں اب تک 41 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔

حماس کے عسکریت پسندوں نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی حصے پر ایک بڑا حملہ کیا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے اور 250 کے لگ بھگ اسرائیلیوں کو جنگجو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ حملے کے ایک سال کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی آنکھوں میں اس دن کے خوف ناک منظر تازہ ہیں۔

جنوبی اسرائیل کے ایک قصبے کی لیکاک الموج کا عسکریت پسندوں کے قبضے میں جانے والے پولیس اسٹیشن کے کھنڈرات اور گولیوں کے نشانات سے اٹی عمارتوں کے پاس سے گزر ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر کونہ یادگار بن گیا ہے۔اگر آپ کچھ بھولنا بھی چاہیں تو نہیں بھول سکتے۔جب آپ کی نظر باہر دیوار پر پڑتی ہے تو وہ آپ کو سب کچھ بار بار یاد دلاتی ہے۔

الموج اسرائیل حماس جنگ میں بے گھر ہونے والے ان ایک لاکھ 20 اسرائیلیوں میں شامل ہیں جو اپنے گھروں میں لوٹ آئے ہیں اور 7 اکتوبر کے حملے کی یادوں میں گھر گئے ہیں۔

انہیں وہ سب یاد آ رہا تھا جب حماس کے عسکریت پسند سرحد پار کر کے ان کے قصبے میں گھس آئے تھے، انہیں جان بچانے کے لیے اپنے محفوظ کمروں میں ، بنکروں میں اور درختوں میں چھپنا پڑا تھا۔ اپنے پیاروں کو کھونے کا غم زندہ بچ جانے والوں کے لیے احساس جرم جیسا بن گیا۔

سدیروت کی 37 سالہ لیکاک الموج نے کیا دیکھا

سدیروت کی 37 سالہ لیلاک الموج کی اپارٹمٹ بلڈنگ کے سامنے 7 اکتوبر ہو پولیس اسٹیشن میں ہونے والا دھماکے نے انہیں دہلا کر رکھ دیا اور سائرن کی گونجتی ہوئی آوازوں میں جب وہ اپنے گھر کے محفوظ کمرے کی طرف بھاگ رہی تھیں تو انہوں نے کھڑکی سے گلی میں درجنوں مسلح افراد کو دیکھا جن کے کندھوں پر گرینیڈ داغے والے راکٹ تھے۔

لیکاک الموج پولیس اسٹیشن پر حملے کے وقت اپنے اپارٹمنٹ میں تھیں۔ انہوں نے حملہ آوروں کو اپنی گلی میں گھومتے اور لوگوں کو قتل کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ پناہ کی تلاش میں تل ابیب چلی گئیں تھیں اور اب اپنے گاؤں لوٹ آئی ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ انٹرویو میں ۔ 22 ستمبر 2024
لیکاک الموج پولیس اسٹیشن پر حملے کے وقت اپنے اپارٹمنٹ میں تھیں۔ انہوں نے حملہ آوروں کو اپنی گلی میں گھومتے اور لوگوں کو قتل کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ پناہ کی تلاش میں تل ابیب چلی گئیں تھیں اور اب اپنے گاؤں لوٹ آئی ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ انٹرویو میں ۔ 22 ستمبر 2024

حملہ آوروں نے پولیس اسٹیشن پر قبضہ کر لیا اور اسرائیلی فوج نے عمارت کو اڑا دیا۔ اس لڑائی میں پولیس کے اہل کاروں سمیت 30 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔الموج جان بچانے کے لیے اپنے بچوں اور ماں کے ساتھ بھاگ کر تل ابیب چلی گئی تھی جہاں وہ آٹھ مہینے تک ایک ہوٹل میں رہے اور جب اگست میں حکومتی امداد ختم ہو گئی تو انہیں سدیروت لوٹنا پڑا۔

حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 41 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں جس میں ان کے بقول اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔ تاہم غزہ کی وزارت صحت یہ نہیں بتاتی کہ ہلاک ہونے والوں میں جنگجو کتنے تھے۔

الموج پر، جو ایک آرکیٹکٹ اور انٹیرئیر ڈیزائنر ہیں، پریشانیوں نے اتنا گہرا اثر ڈالا ہے کہ انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑ کر معذوری کی چھٹی لے لی ہے۔ ان کا 9 سالہ بیٹا اتنا خوف زدہ ہے کہ بستر پر ہی پیشاب کر دیتا ہے اور 11 سالہ بیٹی ڈر کے مارے ماں کے بغیر باہر نہیں نکلتی۔

الموج کہتی ہیں کہ جب تک جنگ جاری ہے ہمارے پاس پرسکون زندگیوں میں واپس آنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ہمارے یرغمال اب بھی ان کے پاس ہیں اور ہمیں اب بھی ڈراونے خواب آتے ہیں۔

زیف عبود، نوا میوزک فیسٹول اور یرغمال ایلیا کوہن

جب نووا میوزک فیسٹول پر حملہ ہوا تو زیف عبود نے راکٹ حملوں سے بچنے کے لیے سڑک کے کنارے ایک بنکر میں پناہ لی۔ کنکریٹ کے اس بنکر میں دس لوگوں کی گنجائش تھی جب کہ وہاں تقریباً 30 افراد گھس گئے تھے۔

زیف عبود نے فیسٹول پر حملے کے بعد بھاگ کر ایک بنکر میں پناہ لی تھیں جس میں 30 افراد چھپے ہوئے تھے۔ بنکر میں بم پھٹنے سے نصف لوگ مارے گئے تھے اور کچھ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ مرنے والوں میں زیف کے پیارے بھی شامل تھے۔ ایسوسی ایٹڈ یریس کے ساتھ ایک انٹریو میں ۔ 19 ستمبر 2024
زیف عبود نے فیسٹول پر حملے کے بعد بھاگ کر ایک بنکر میں پناہ لی تھیں جس میں 30 افراد چھپے ہوئے تھے۔ بنکر میں بم پھٹنے سے نصف لوگ مارے گئے تھے اور کچھ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ مرنے والوں میں زیف کے پیارے بھی شامل تھے۔ ایسوسی ایٹڈ یریس کے ساتھ ایک انٹریو میں ۔ 19 ستمبر 2024

عسکریت پسندوں نے بنکر میں دستی بم پھینکے۔ عبود نے بتایا کہ ایک سابق فوجی نے 8 دستی بم واپس باہر پھینک دیے جب کہ 9 بم پھٹ گیا جس سے بنکر میں موجود لگ بھگ آدھے لوگ ہلاک ہوگئے۔ بم پھٹنے سے بنکر میں دھواں اور افراتفری پھیل گئی۔ اس دوران عسکریت پسندوں نے کئی لوگوں کو پکڑ لیا اور پناہ گاہ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔

اس حملے میں عبود محفوظ رہیں۔ جب ان کے حواس بحال ہوئے تو انہیں اپنے بھتیجے اور اس کی گرل فرینڈ کی لاشیں نظر آئیں، لیکن اپنے بوائے فرینڈ ایلیا کوہین کا کچھ پتہ نہ چلا۔عسکریت پسند ایک اسرائیلی نژاد امریکی ہرش لولڈ برگ پولن سمیت چار افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔عبود نے سال بھر کے دوران یرغمالوں کی رہائی اور کوہن کی واپسی کے لیے بھرپور مہم چلائی ہے اور دنیا بھر کا سفر کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے دکھوں کے بارے میں کم ہی سوچتی ہوں ۔ میرے ذہن میں بس یہی رہتا ہے کہ ایلیا کوہن کو واپس کیسے لایا جائے۔

کیبوتز نیر عوز کے 86 سالہ شلومو مارگیلٹ، 79 سالہ ہنالی مارگیلٹ پر کیا گزری

کیبوتر نیر عوز کے تقریباً 400 رہائشیوں میں سے 42 کو عسکریت پسندوں نے ہلاک اور 75 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ شلومو مارگیلٹ اور ہنالی مارگیلٹ اب بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ کیسے بچ گئے تھے۔ان کے گھر کے اطراف کے تمام مکینوں کو عسکریت پسندوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ وہ ان کے گھر میں بھی آئے لیکن اس کمرے میں نہیں گئے جہاں وہ دونوں چھپے ہوئے تھے۔

شلومو مارگیلٹ اور ہنالی مارگیلٹ حملے میں اپنا گھر تباہ ہونے کے بعد ایک عارضی گھر پناہ گاہ میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے 7 اکتوبر کے حملے کے متعلق بتایا کہ اس دوران ان پر کیا گزری۔ 22 ستمبر 2024
شلومو مارگیلٹ اور ہنالی مارگیلٹ حملے میں اپنا گھر تباہ ہونے کے بعد ایک عارضی گھر پناہ گاہ میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے 7 اکتوبر کے حملے کے متعلق بتایا کہ اس دوران ان پر کیا گزری۔ 22 ستمبر 2024

مارگیلٹ کی شادی کو 64 سال ہو چکے ہیں اوران کی عمر کا زیادہ تر حصہ نیرعوز میں گزرا ہے۔ انہوں ے اس بنجرریگستان کو بلندو بالا درختوں اور سرسبز گاؤں میں تبدیل کرنے کے لیے عمر بھر کام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا گاؤں تباہ ہو چکا ہے جسے دوبارہ تعمیر کرنے میں اب برسوں لگیں گے۔

اب یہ جوڑا نیرعوز کے دوسرے مکینوں کی طرح شمال مشرق میں ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے فاصلے پر ایک عارضی ہاؤسنگ سکیم میں رہ رہا ہے۔شلومو مارگیلٹ ہفتے میں ایک بار اپنے تباہ حال گاؤں میں قبرستان کی دیکھ بھال کے لیے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہاں کئی نئی قبروں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ ہر بار ان میں سے کسی ایک شخص کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر گاؤں میں اس کے تباہ شدہ مکان میں جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جانے و الوں کو الوداع کرنے کا یہ ایک طریقہ ہے۔

نووا فیسٹول میں زندہ بچ جانے والی 47 سالہ ایلات شالیف کیا سوچتی ہیں

ایلات کو یاد ہے کہ جب 7 اکتوبر کا سانحہ ہوا تو اس کے چند روز بعد پومیلو کا پھل اتارا جانے والا تھا۔ پومیلو بڑے لیموں جیسا ایک علاقائی پھل ہے۔کسانوں نے ان کے لیے بڑے بڑے ڈبے تیار کر کے رکھ دیے تھے۔

ایلات شالیف نے حماس کے حملے کے بعد ایک باغ میں چھپ کر اپنی جان بچائی تھی۔ ایک درخت پر لٹکی ایک ٹی شرٹ میں انتونیو یانیف اوریونی ایڈن کی تصویریں پرنٹ ہیں جہاں وہ ہلاک کر دیے گئے تھے۔ 27 ستمبر 2024
ایلات شالیف نے حماس کے حملے کے بعد ایک باغ میں چھپ کر اپنی جان بچائی تھی۔ ایک درخت پر لٹکی ایک ٹی شرٹ میں انتونیو یانیف اوریونی ایڈن کی تصویریں پرنٹ ہیں جہاں وہ ہلاک کر دیے گئے تھے۔ 27 ستمبر 2024

جس وقت عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تو وہاں نووا کا میوزک فیسٹول ہو رہا تھا اور ایلات اپنے شوہر کے ساتھ رقص کر رہی تھیں۔جب عسکریت پسندوں کی فائرنگ شروع ہوئی تو ایلات اپنی جان بچانے کے لیے پومیلو کے باغ میں بھاگ گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ میں ایک درخت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی۔ ایک گولی میرے سر کے انتہائی قریب سے گزر گئی۔میں نے دعا کی کہ خدا مجھے اپنے بچوں کے لیے زندہ رکھے۔ان کے چار بچے ہیں جن کی عمریں 12 سے 23 سال کے درمیان ہیں۔ عسکریت پسندوں کے حملے نے ایلات سے ان کا شوہر چھین لیاہے۔ وہ حملے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے جسے پولیس نے پانچ دن کے بعد مردہ قرار دے دیا تھا۔

کیبوتز نیرعوز کی 50 سالہ یرغمال لیات اتزیلی کہتی ہیں کہ ہمیں ساتھ ہی رہنا ہے

لیات ایزیلی کو عسکریت پسند پکڑ کر اپنے ساتھ غزہ لے گئےتھے۔ 54 دن کی قید کے بعد انہیں رہائی مل گئی اور وہ ایک ٹیچر کے طور پر اپنے کام پر واپس آ گئیں۔

حماس کے حملے میں لیات اتزیلی یرغمال بنی تھیں انہیں نومبر کی عارضی جنگ بندی میں رہائی ملی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سرزمین سے نہ تو یہودی جا سکتے ہیں اور نہ ہی فلسطینی۔ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنا سیکھنا ہو گا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ انٹرویو میں۔ 22 ستمبر 2024
حماس کے حملے میں لیات اتزیلی یرغمال بنی تھیں انہیں نومبر کی عارضی جنگ بندی میں رہائی ملی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سرزمین سے نہ تو یہودی جا سکتے ہیں اور نہ ہی فلسطینی۔ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنا سیکھنا ہو گا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ انٹرویو میں۔ 22 ستمبر 2024

وہ کہتی ہیں کہ میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کیونکہ مجھے دوسرے یرغمالوں کی طرح زیر زمین سرنگوں کی بجائے ایک اپارٹمنٹ میں قید رکھا گیا تھا۔لیکن قید کے دوران انہیں مسلسل یہ فکر رہی کہ ان کا خاندان زندہ بچا بھی ہے یا نہیں۔

نومبر میں جنگ بندی کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر اس کی رہائی کے اگلے دن، اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ اس کے شوہر ابیب کو قتل کر دیا گیا ہے اور اس کی لاش غزہ میں رکھی گئی ہے۔ اس کے تین بچوں میں سے دو کبٹز پر تھے، اور دونوں بچ گئے۔

اتزیلی کی رہائی نومبر میں عارضی جنگ بندی کے ایک معاہدے میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ یرغمالوں کے تبادلے میں ہوئی تھی۔ ان کے شوہر کے بارے میں اسرائیلی فوج نے بتایا تھا کہ وہ قتل کر دیے گئے تھے اور ان کی لاش غزہ میں ہے۔ان کے تین میں سے دو بچے کیبوتز میں تھے اور وہ زندہ بچ گئے تھے۔

اتزیلی کی سالگرہ آنے والی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک مشکل موقع ہے کہ اس ایک سال کے دوران ہم نے کتنا کچھ کھو دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہودی یہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی اس علاقے سے غائب ہو جائیں جب کہ فلسطینیوں کی بھی یہ خواہش ہے کہ یہودی اس سرزمین پر نہ رہیں۔لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔ کوئی بھی کہیں نہیں جا رہا۔ ہمیں ایک دوسرے سے پیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہمیں ایک ساتھ چلنا ہے۔ ہمیں ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ہے جس پر چل کر ہر کوئی محفوظ رہ سکے۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG