بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے جموں کے ایک اہم فوجی ٹھکانے کے اندر محصور عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی ابھی جاری تھی کہ پیر کو علی الصباح سرینگر میں عسکریت پسندوں نے بھارتی حفاظتی دستوں کے ایک کیمپ میں زبردستی گھسنے کو کوشش کی۔
عہدیداروں کے مطابق، چوکس محافظوں نے اسے ناکام بنادیا تاہم ایک اہلکار عسکریت پسندوں کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوگیا۔
منگل کی سہ پہر کو انسپکٹر جنرل آف پولیس سوائم پرکاش پانی نے ایک نیوز کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ زیرِ تعمیر عمارت میں محصور دونوں عسکریت پسندوں کو بھی ہلاک کردیا گیا ہے جس کے بعد 27 گھنٹے تک جاری رہنے والی جھڑپ ختم ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں کی شاخت کی جارہی ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق محصور عسکریت پسندوں کے خلاف حتمی حملے کے دوران ہلکے اور درمیانی درجے کے ہتھیاروں کے ساتھ مارٹر بم استعمال کیے گئے جس سے عمارت کا ایک بڑا حصہ تباہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی عسکریت پسندوں کی طرف سے فائرنگ رُک گئی۔ بعد میں حفاظتی دستوں کو ملبے سے دو لاشیں ملیں۔
عسکریت پسندوں کے خلاف حتمی کارروائی سے پہلے سرینگر کے ایک وسیع علاقے میں لوگوں کی نقل و حرکت کو روک دیا گیا تھا اور مظاہروں اور تشدد کے خدشے کے پیشِ نظر کرفیو لگادیا گیا۔
تاہم ایک سرکاری ترجمان نے بتایا کہ دارالحکومت کے کچھ علاقوں میں حفظِ ما تقدم کے طور پر دفعہ 144 کے تحت حفاظتی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
عہدیداروں نے بتایا کہ بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے کیمپ پر حملہ سرینگر کے کرن نگر علاقے میں مقامی وقت کے مطابق پیر کی صبح ساڑھے چار بجے ہوا۔
فوجیوں کی جوابی فائرنگ کے ساتھ ہی حملہ آور ایک قریبی زیرِ تعمیر عمارت کے اندر دوڑے جسے حفاظتی دستوں نے فوری طور پر گھیرے میں لے لیا۔ عہدیداروں کے مطابق جھڑپ کے دوراں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوگیا ہے۔ اس واقعے کی ذمہ داری لشکرِ طیبہ نے قبول کی ہے۔
اُدھر جموں کے سنجوان علاقے میں واقع بھارتی فوج کے 36 بریگیڈ کے صدر دفاتر کے اندر عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ اس اہم فوجی ٹھکانے پر حملہ ہفتے کی صبح کیا گیا تھا اور اس میں پانچ فوجی اور ایک سویلین ہلاک اور ایک میجر سمیت گیارہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
فوج نے چار عسکریت پسندوں کو بھی ہلاک کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پیر کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ پارلیمانی امور عبد الرحمٰن ویری نے صوبائی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ صرف تین عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ ان کے چوتھے ساتھی کے بارے میں یہ اطلاع ہے کہ وہ ابھی تک فوجی ٹھکانے کے اندر ایک عمارت میں محصور ہے۔
صورتِحال کا بہ نفسِ نفیس جائزہ لینے بھارت کی وزیرِ دفاع نرملا سیتھا رمن پیر کے روز جموں پہنچیں۔ اس سے پہلے اتوار کو بھارتی بری فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے بھی جموں آکر حالات کا جائزہ لیا تھا۔ عہدیداروں کے مطابق بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی کی ایک ٹیم نے جو اتوار کو نئی دہلی سے جموں پہنچی تھی واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ عہدیداروں نے فوجی ٹھکانے پر کئے گئے حملے کے لئے عسکری تنظیم جیشِ محمد کو ذمہ دار ٹھرایا ہے۔
ان حملوں اور متنازعہ کشمیر میں بھارت-پاکستان سرحدوں پر گزشتہ تین ہفتے سے جاری گولہ باری کے پس منظر میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات بحال کرنے پر زور دیا ہے۔ پیر کو ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا۔ " اگر ہمیں خون خرابے کو بند کرنا ہے تو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا ناگزیر ہے۔ مجھے معلوم ہے آج رات (بھارتی) ٹی وی اینکر مجھے ملک دشمن قرار دے دینگے، مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ جموں و کشمیر کے لوگ مصیبت میں ہیں۔ ہمیں بات کرنی ہے کیونکہ جنگ آپشن نہیں ہے"-