پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختواںخواہ کی حکومت نے مبینہ طور پر بدعنوانی اور نا اہلی میں ملوث ہزاروں پولیس اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی ہے۔
صوبائی حکومت کے عہدیداروں کے مطابق یہ کارروائی گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے جاری اُس حکومتی مہم کا حصہ ہے جس کے تحت اعلیٰ اور نچلی سطح کے کئی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی۔
حکام کے مطابق جن پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی ان میں سے بعض کو یا تو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا یا ان کی سرزنش کرتے ہوئے ان کی تنزلی کر دی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کے مشیر عارف یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کی حکومت نے دیگر شعبوں کی طرح پولیس کے نظام کو بہتر کرنے کے اقدامات اٹھائے ہیں تاکہ صوبے کے پولیس کو مثالی پولیس بنایا جا سکے۔
’’تقریباً ہمارے پاس پانچ ہزار افراد کی تعداد ہے جو کسی بھی چیز(غیر قانونی کام) میں ملوث تھے ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور بعض لوگوں کو ہم نے نوکری سے ہٹا دیا ہے، اور ان میں جو عدالت میں گئے ہیں وہاں ہم اپنے فیصلے کا دفاع کر رہے ہیں اور بعض اہلکاروں کی ترقیاں روک دی گئی ہیں اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پولیس سے بدعنوانی کا مکمل خاتمہ کر کے اسے پاکستان کے لیے ایک ماڈل پولیس بنا دیں۔‘‘
صوبائی حکومت کے عہدیداروں کے مطابق جن اہلکاروں کے خلاف سزا و جزا کے عمل کے تحت کارروائی کی گئی ہے ان میں افسران بھی شامل ہیں۔ حکام کے مطابق جنہیں نوکری سے برخاست کیا گیا ہے ان میں 10 ڈی ایس پیز، چار انسپکٹرز، 43 سب انسپکٹرز اور 607 اہل کار شامل ہیں۔
پولیس حکام نے تصدیق کی ہے کہ سزا پانے والوں میں سے بیشتر نے حکومت کے اس اقدام کو عدالتوں میں چیلنج کیا ہے جن میں سے متعدد کو عدالتی فیصلوں کے تحت دوبارہ نوکری پر بحال کر دیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اکتوبر 2013 میں پولیس سمیت دوسرے محکموں میں بدعنوانی کے خاتمے اور ان کی کارگردی بہتر کرنے کی مہم شروع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
حکمران جماعت کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں جزا اور سزا کے عمل سے پولیس کے نظام کو شفاف بنایا جا رہا ہے۔ تاہم حزب اختلاف میں شامل جماعتوں کے رہنما اور عہدیدار پاکستان تحریک انصاف کے اس دعویٰ سے متفق نہیں۔