چین کے کرونا وائرس کی لپیٹ میں آئے شہر ووہان میں پھنس جانے والے ایک کروڑ دس لاکھ لوگوں میں کرسٹین شاو بھی شامل ہیں جو سپرنگ فیلڈ ورجینا کی ورٹاس کالجیٹ اکیڈمی کی طالبہ ہیں۔
کرسٹین اپنے والدین کے ساتھ نئے قمری سال کی تقریبات میں شرکت کے لیے چین گئی تھیں جو اس سال 25 جنوری سے شروع ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ مشکل ترین صورت حال سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں، جس کے لیے وہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ آن لائن ویڈیو چیٹ کرتی ہیں۔
اس نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک ویڈیو چیٹ میں بتایا کہ ووہان کا واقعہ میری پڑھائی پر اثرانداز ہو رہا ہے، کیونکہ میں گیارہویں جماعت میں پڑھتی ہوں۔
انہوں نے شہر میں نافذ پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ خاندان میں سے صرف ایک شخص کو ہفتے میں تین بار گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ اس لیے ہمارے محلے میں لوگوں نے ضروری اشیا کی خرید کے لیے گروپ بنا دیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خبروں کے مطابق، کرونا وائرس کا زور ٹوٹنا شروع ہو گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں مزید کتنا عرصہ ووہان میں ٹھہرنا پڑے گا، تو کرسٹین کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ ایک مہینہ اور لگ جائے۔
ادھر سپرنگ فیلڈ کی ورٹاس کالجیٹ اکیڈمی کے سربراہ شان ایگٹ نے بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کرسٹین چین میں رہتے ہوئے بھی اکیڈمی کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہے، جس کے لیے ہم نے کچھ ایسا بندوبست کیا ہے کہ وہ چین میں زیر استعمال ویڈیو چیٹ ایپ، وی چیٹ کے ذریعے اپنے کلاس روم سے رابطے میں رہ سکے۔
کرسٹین نے ویڈیو ایپ کے ذریعے چین سے اپنے کلاس فیلوز اور ٹیچرز کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ ووہان کے اسپتالوں کو طبی مدد فراہم کریں جس کے جواب میں سکول نے ایک ہفتے میں 30 ہزار ڈالر اکھٹے کر کے ایک بین الاقوامی امدادی ادارے کو دیے، تاکہ وہ طبی سامان وہاں بجھوا سکے۔
ہنگریئن بپٹسٹ ایڈ کے نائب صدر ڈاکٹر بیلا سزیلاگئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ یورپ سے خصوصی ماسک اور دور سے درجہ حرارت بتانے والے تھرمامیٹر اور دوسرا طبی سامان خرید رہے ہیں جسے یورپ سے براہ راست ووہان بھیج دیا جائے گا۔
اکیڈمی کے طالب علم ووہان سے باہر نکلنے پر پابندی کے خاتمے کا انتظار کر رہے ہیں، تاکہ کرسٹین امریکہ واپس آ کر اپنے ساتھیوں سے مل سکے اور اپنی کلاسوں میں شرکت کر سکے۔