یوسف جمیل
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں تقریبا" تین دہائیوں سے جاری شورش کے پس منظر میں اسٹیک ہولڈرس کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کرنے کے لئے بھارتی حکومت کے نئے مذاكرات کار دنیشور شرما پیر کے روز سری نگر پہنچ گئے۔
شرما انڈین پولیس سروس کی 1979 گروپ ایک افسر اور ملک کے سب سے اہم انٹیلی جینس ادارےیا آئی بی کے سابق سربراہ ہیں۔
انہیں بھارت کی وفاقی حکومت نے دو ہفتے پہلے کشمیر کے لئے نیا مذاكرات کار مقرر کردیا تھا۔ بھارت کے وزیرِ داخلہ را ج ناتھ سنگھ نے اُن کی تقرری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں کشمیریوں کی جائز خواہشات جاننے کے لئے تمام متعلقین کے ساتھ بات کرنے کی اجازت ہوگی۔
تاہم بعد میں حکومت میں شامل بعض ذمہ دار شخصيات اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چند لیڈروں نے مذاكرات کار کو حاصل منڈیٹ کے بارے میں متضاد بیانات دینا شروع کردیے – خود شرما نے بھی کئے ایسے بیانات دیئے جنہوں نے نئے تنازعات کھڑے ہوگئے ہیں – جس سے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں میں ان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی وجہ بن گئے۔
ان جماعتوں کے ایک اہم اتحاد نے مذاكرات کار سے ملنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا ہے کہ یہ وقت کا زیاں ہوگا۔ اتحاد نے بھارتی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بقول یہ اقدام کشمیریوں کو طاقت کے بل پر دبانے میں ناکامی کے بعد محض وقت گذارنے اور کشمیر پر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ کئی ہم خیال سیاسی اور سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی گروپس نے بھی مذاكرات کار سے نہ ملنے کا اعلان کردیا ہے۔ ملاقات سے انکار کرنے والوں میں وکلاء کی تنظیم کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی شامل ہے-
سب سے بڑی بھارت نواز علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے کہا ہے کہ انہیں نئے مذاكرات کار کی تقرری سے زیادہ امید وابستہ نہیں ہے کیونکہ شرما گذشتہ پندرہ برس کے دوران بھارتی حکومت کی طرف سے مقرر جانے والے چوتھے مذاكرات کار ہیں۔ اس سے پہلے مذاكرات کاروں کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹوں پر، فاروق عبد اللہ کے بقول عمل درآمد کی بجائے انہیں ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا گیا۔
تاہم وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ مذاكرات کار کی آمد سے ایک نئی شمع روشن ہوئی ہے۔ پیر کی رات اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا " ڈائیلاگ کے ذریعے حل تلاش کرنے کی اُمید روش ہوگئی ہے۔۔۔میں امید کرتی ہوں کہ جموں وکشمیر کی جماعتیں اور تنظیمیں مذاكرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوشش کا حصہ بننے کے اس موقع کو نہیں گنوا ئیں گی۔‘‘
حزبِ اختلاف کی ایک اور جماعت کانگریس نے حکومت سے پہلے یہ وضاحت کرنے کے لئے کہا ہے کہ اس کے نزدیک کشمیر پر کون لوگ اسٹیک ہولڈر ہیں۔
تاہم 61 سالہ شرما نے سری نگر میں اپنی آمد سے پہلے کہا تھا کہ اُن کی طرف سے سلسلہ جنبانی شروع کئے جانے سے پہلے کسی کو نتائج اخذ نہیں کرنا چاہیئں ۔ ان کے اپنے الفاظ میں "میرے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں ہے۔ تاہم میری کوششوں کو میرے خلوصِ کے پیرائے میں دیکھا جانا چاہیئے نہ کہ ماضی میں کیا کچھ ہوا ہے اُسے سامنے رکھا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ کشمیر کے مسائل اور معاملات کے بارے میں پہلے سے طے شدہ تصورات نہیں رکھتے اور یہ کہ ہر ایک فرد کا جو اُن سے ملنا چاہتا ہے خیر مقدم کیا جائے گا۔
مذاكرات کار ریاست کے گرمائی دارالحکومت میں تین اور سرمائی دارالحکومت میں دو دن قیام کریں گے۔ انہیں حکومت نے کابینہ سیکرٹری کا درجہ دے کر سخت سیکیورٹی فراہم کردی ہے۔ عہدے داروں نے بتایا کہ وہ تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں سے، جن میں سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے لیڈر اور کارکن، طلبہ اور طالبات اور سول سوسائٹی کارکن بھی شامل ہیں مل رہے ہیں۔