رسائی کے لنکس

بلوچستان: 'جبری گمشدگی' کے واقعات بڑھنے کی شکایات


  • خضدار، قلات، کوئٹہ، حب اور لاہور سے بھی لوگوں کو مبینہ طور پر لاپتا کیا گیا ہے: ماما قدیر
  • اگر کوئی بھی شخص ریاست کے خلاف کسی بھی کارروائی میں ملوث ہے تو اسے آئین اور قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جائے: وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز
  • بلوچ تنظیم بلوچ یکجہتی کونسل (بی وائی سی) کے مطابق حالیہ واقعات میں زیادہ تر افراد کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ ہیں۔
  • پاکستان کے سیکیورٹی ادارے جبری گمشدگیوں کے واقعات سے متعلق الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

کوئٹہ -- بلوچستان میں گزشتہ دو ماہ کے دوران امن و امان کی خراب صورتِ حال کے بعد مختلف علاقوں میں لوگوں کو مبینہ طور پر لاپتا کرنے کی شکایات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

صوبے میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ ہر بار جب بھی دہشت گردی کے واقعات بڑھتے ہیں تو بے گناہ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتا کیا جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ماما قدیر کا کہنا تھا کہ "بدھ کو ہمیں اطلاع ملی کہ کراچی سے نو افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے ان نوجوانوں کے نام بھی سامنے آ چکے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق بلوچستان کے مکران ڈویژن کے علاقوں پنجگور، گریشہ، تمپ اور گوادر سے ہے۔"

ماما قدیر کے بقول خضدار، قلات، کوئٹہ، حب اور لاہور سے بھی لوگوں کو مبینہ طور پر لاپتا کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں رواں سال ایک بار پھر امن و امان کی صورتِ حال خراب ہوئی ہے اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں پر متعدد حملے ہو چکے ہیں۔

کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے 26 اگست کو سابق وزیرِ اعلٰی بلوچستان اور بزرگ سیاست دان نواب اکبر خان بگٹی کی برسی کے موقع پر بیک وقت بلوچستان کے ایک درجن سے زائد اضلاع میں مہلک حملے کیے گئے جن میں 60 افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔

اس سے قبل بلوچستان کے ضلع مستونگ میں مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ضلع پنجگور کے ڈپٹی کمشنر کو ہلاک کر دیا تھا۔

ماما قدیر کہتے ہیں کہ "ہم گزشتہ 16 برسوں سے پرامن احتجاج کر رہے ہیں اور ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ اگر کوئی بھی شخص ریاست کے خلاف کسی بھی کارروائی میں ملوث ہے تو اسے آئین اور قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جائے اگر ان پر کچھ بھی ثابت ہو تو انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔"

انہوں نے کہ جبری گمشدگی کے حالیہ واقعات کے حوالے سے لواحقین ان سے رابطے میں ہیں اور بہت جلد ہی تنظیم ان واقعات کے خلاف احتجاج کی کال دے گی۔

واضح رہے کہ ماضی میں 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ 2009 سے اب تک لاپتا ہونے والا کل افراد کی تعداد سات ہزار کے قریب ہے جب کہ 2500 افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے سیکیورٹی ادارے جبری گمشدگیوں کے واقعات سے متعلق الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

بلوچ تنظیم بلوچ یکجہتی کونسل (بی وائی سی) کے مطابق حالیہ واقعات میں زیادہ تر افراد کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ ہیں۔

بی وائی سی کے مطابق رواں ماہ 10 اکتوبر کو بلوچستان کے علاقے نوشکی سے تعلق رکھنے والے دو طلبہ کو لاہور سے مبینہ طور پر لاپتا کیا گیا۔

ان کے مطابق لاہور کی ایک نجی یونی ورسٹی کے قانون کے طالب علم شمریز بلوچ اکنامکس کے طالب علم دیدگ بلوچ کو ریاستی اداروں نے لاپتا کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ مکران میں ایک اور واقعے میں مسلم سمالانی کو لاپتا کیا گیا۔

بی وائی سی کے مطابق 12 اکتوبر کو بھی حب چوکی کے علاقے ساکران سے شبیر احمد، آفتاب احمد اور رشید بلوچ کو مبینہ طور پر لاپتا کیا گیا ہے۔

سرکاری سطح پر تاحال حالیہ واقعات میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کی کوئی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی ہے۔

ادھر انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے کونسل رکن طاہر حبیب ایڈووکیٹ نے بلوچستان میں ایک بار پھر لوگوں کی جبری گمشدگی کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ریاست کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے اور اس مسئلے کے حل کے لیے موثر قانون سازی کی جائے۔

طاہر حبیب ایڈووکیٹ کے مطابق زیادہ تر لاپتا افراد کے لواحقین مقدمات درج کرنے یا فہرست میں نام شامل کرانے سے کراتے ہیں شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پیارے جلد ہی بازیاب ہوں گے۔

اُنہوں نے کہا کہ ایچ آر سی پی کا لاپتا افراد کے حوالے سے شروع سے ہی یہ مؤقف رہا ہے کہ اگر کوئی ریاست کے خلاف کسی قسم کی کارروائی میں ملوث ہو تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی حکومت نے رواں سال لاپتا افراد کے لواحقین کو فی کس 50 لاکھ روپے امداد کی فراہمی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم لاپتا افراد کے لواحقین اور ان کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے حکومت کی اس پیش کش کو یکسر مسترد کیا ہے۔

پاکستان کی حکومت اور عسکری ادارے ماضی میں یہ کہتے رہے ہیں کہ لاپتا افراد کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔

ان کا الزام ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو لوگ مارے گئے ہیں ان کا نام بھی لاپتا افراد کی فہرستوں میں شامل رہا ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کچھ ماہ قبل لاپتا افراد کے حوالے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو تنظیمیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں انہیں چاہیے کہ پہلے اپنے دعوے کو ثابت کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص لاپتا ہوا بھی ہے تو اس سلسلے میں ایک کمیشن کام کر رہا ہے اور ہر ماہ اس کمیشن کا اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں لاپتا افراد کے کیسز کا اندراج ہوتا ہے۔

اُن کے بقول اگر تنظم کے پاس اس دعوے کے شواہد ہیں تو وہ لاپتا افراد کمیشن کو پیش کریں تاکہ ان افراد کو تلاش کرنے کے لیے کوششیں عمل میں لائی جائیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG