|
نئی دہلی — بھارت کی اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرینِ قانون نے سپریم کورٹ کی جانب سے مبینہ 'بلڈوزر جسٹس' پر حکمِ امتناع کا خیر مقدم کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ شہریوں کے حقوق پر زور دیتا ہے اور حکام کو یاد دلاتا ہے کہ وہ ایسے جابرانہ اقدامات سے گریز کریں۔
منگل کو سپریم کورٹ نے جمعیت علمائے ہند اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے بعد مبینہ 'بلڈوزر جسٹس' پر یکم اکتوبر تک حکمِ امتناع جاری کر دیا تھا۔
جسٹس بی آر گوئی اور کے وی وشوناتھن پر مشتمل بینچ نے سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر نجی املاک کو بلڈوزر سے مسمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس معاملے پر یکم اکتوبر کو پھر سماعت ہوگی۔
سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں نے اپنی درخواستوں میں مؤقف اپنایا ہے کہ عدالت ریاستی حکومتوں کو ہدایت دے کہ تشدد کے ملزموں کی املاک مسمار نہ کی جائیں اور کوئی بھی انہدامی کارروائی قوانین و ضوابط کی پاسداری کے بغیر عمل میں نہ لائی جائے۔
اس معاملے پر اپوزیشن جماعت کانگریس نے کہا ہے کہ ملک آئین سے چلے گا، بلڈوزر سے نہیں۔ سماجوادی پارٹی کا کہنا ہے کہ عدالت نے صرف بلڈوزر کو ہی نہیں بلکہ بلڈوزر کا غلط استعمال کرنے والی تخریبی سیاست کو بھی کنارے لگا دیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماورائے عدالت اقدامات اور انتقامی کارروائی کے طور پر بلڈوزر کے استعمال پر روک لگا دیا ہے جس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
وزارتِ قانون کے ایک سابق عہدے دار اور مصنف خواجہ عبدالمنتقم کہتے ہیں کہ ہم نے قانونی، سماجی، حقیقی انصاف وغیرہ کے نام تو سنے تھے لیکن ’بلڈوزر انصاف‘ ایک حیران کن اصطلاح ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ عدالت نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا ہے۔ لیکن بلڈوزر کارروائی کے خلاف اس کا تبصرہ انتظامیہ پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اس کی رائے کا احترام کرے اور اس متنازع عمل سے دور رہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کی ضمنی رائے قابلِ پابندی تو نہیں ہوتی لیکن قابلِ احترام ضرور ہوتی ہے۔ عدالت کا یہ کہنا بہت اہم ہے کہ اگر کسی ملزم کا جرم ثابت بھی ہو جائے تب بھی اس کی املاک کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے دو ستمبر کی سماعت میں ضابطے کی پابندی کے بغیر انہدامی کارروائی کو غلط قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں ملک گیر سطح پر رہنما ہدایات جاری کرے گی۔ جب کہ 12 ستمبر کو عدالت نے کہا تھا کہ کسی شخص کا کسی جرم میں ملوث ہونا اس کی نجی املاک کو مسمار کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
واضح رہے کہ اپریل 2022 میں دہلی کے جہاں گیر پوری علاقے میں ہندوؤں کے تہوار کے موقع پر مسلمانوں اور ہندوؤں میں ٹکراؤ کے بعد میونسپل کارپوریشن نے بہت سے مکانوں اور دکانوں کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس کرشن مراری اور ہیما کوہلی کے بینچ نے اس پر روک لگائی تھی اور ضوابط کی پابندی کے بغیر انہدامی کارروائی کو غلط قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن پرشانت بھوشن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے عدالتی حکم کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت کو ٹارگیٹڈ مسماری کو روکنا چاہیے۔
ان کے علاوہ دیگر قانون دانوں نے بھی بلڈوزر کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ نجی املاک مسمار کرنے کا آغاز سال 2017 میں ریاست اترپردیش سے ہوا تھا جہاں وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ملزموں کے مکانات کو منہدم کرنے کی اپنی دھمکی پر عمل شروع کیا تھا۔ بعد ازاں مدھیہ پردیش، آسام، مہاراشٹر اور ہریانہ وغیرہ اور بی جے پی کی اقتدار والی ریاستوں میں بھی 'بلڈوزر جسٹس' شروع ہو گیا۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے فروری میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بی جے پی کی اقتدار والی ریاستوں اور عام آدمی پارٹی کی حکومت والی ایک ریاست میں اپریل سے جون 2022 کے درمیان مجموعی طور پر 128 تعمیرات کو مسمار کیا۔ ان تعمیرات میں سے بیشتر مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں سال میں دہلی میں ایک مسجد، اتراکھنڈ میں ایک مدرسہ، آسام میں بنگالی بولنے والے ہزاروں مسلمانوں کی جھونپڑیوں، مدھیہ پردیش میں بیف کی اسمگلنگ کے الزام میں 11 مکانات، راجستھان کے ادے پور میں ایک ہندو ساتھی کو چاقو مارنے والے ایک مسلم طالب علم کے کرائے کے مکان اور مدھیہ پردیش کے چھترپور میں پولیس کے ساتھ مبینہ تصادم کے بعد ایک مقامی کانگریس رہنما کی کروڑوں روپے کی حویلی کو غیر قانونی قرار دے کر مسمار کیا گیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اگست میں ہریانہ کے نوح علاقے میں ہندو مذہب کی ایک یاترا کے دوران تشدد کے بعد انتظامیہ نے پانچ روز تک انہدامی کارروائی کرتے ہوئے 1208 عمارتوں اور ڈھانچوں کو مسمار کر دیا تھا۔ تقریباً تمام املاک مسلمانوں کی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق محمد شہود نامی ایک شخص کی چار ہزار سے زائد مربع فٹ نجی زمین پر تعمیر 18 دکانوں کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں سال جولائی میں مہاراشٹر کے شہر کولہاپور میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں ٹکراؤ کے بعد انتظامیہ نے مسلم ملکیت والی 60 سے 70 املاک کو بلڈوزر سے مسمار کردیا تھا جس پر ہائی کورٹ نے ناراضی ظاہر کی تھی اور اس کارروائی کو روکنے کا حکم دیا تھا۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
انسانی حقوق کے کارکن حکومت پر مسلمانوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف امتیازی رویہ اختیار کرتے ہوئے عمارتوں کی مسماری کا الزام لگاتے ہیں۔ حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ انہدامی کارروائیوں کے سلسلے میں ایک گمراہ کن بیانیہ تیار کیا گیا ہے۔ اس پر بینچ نے کہا کہ آپ یقین رکھیں کہ باہر کا بیانیہ ہمیں متاثر نہیں کر سکتا۔
تشار مہتہ نے صرف مسلمانوں کی املاک مسمار کرنے کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ صرف ایک مخصوص برادری کی املاک مسمار کی جا رہی ہیں جب کہ مدھیہ پردیش میں ضابطے کی پابندی کے ساتھ جن 70 دکانوں کو منہدم کیا گیا ان میں 50 ہندو ملکیت کی تھیں۔
عدالت نے مذکورہ کیس میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ ناجائز قبضوں اور تجاوزات کو ضابطے کی پابندی کے تحت ہٹانے کی مخالف نہیں ہے اور اس پر کوئی پابندی نہیں لگاتی۔
قانون کیا کہتا ہے؟
بعض قانونی ماہرین کہتے ہیں ریاستوں کے اپنے بنائے ہوئے قوانین میں ایسی کئی دفعات ہیں جو مخصوص حالات میں تجاوزات کو ہٹا کر املاک کو ضبط کرنے کا اختیار انتظامیہ کو دیتی ہیں۔
تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کسی نے ناجائز طریقے سے عمارت تعمیر کی ہے تو اسے پہلے نوٹس دیا جائے۔ جواب دینے کے لیے وقت دیا جائے اور متبادل رہائش کا انتظام کیا جائے۔ اس کے بعد ہی انہدامی کارروائی کی جائے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جب کہیں تشدد ہوتا ہے تو اس کے بعد ہی انتظامیہ کو کیوں یاد آتا ہے کہ فلاں املاک ناجائز ہیں۔ وہ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ ایک آبادی میں کوئی ایک ہی مکان کیسے ناجائز ہو سکتا ہے۔
فورم