رسائی کے لنکس

نیب ترامیم بحال؛ عمران خان ثابت نہیں کر سکے کہ ترامیم غیر آئینی ہیں، سپریم کورٹ


  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ میں شامل تمام پانچ ججز نے متفقہ طور پر نیب ترامیم کی بحالی کا فیصلہ دیا ہے۔
  • بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے فیصلے میں اضافی نوٹ تحریر کیے ہیں۔
  • پارلیمنٹ کی قانون سازی کو بلاوجہ کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ قانون سازی خلافِ آئین ہو تو بھی کالعدم نہ کی جائے، فیصلہ
  • تین رکنی بینچ کا فیصلہ ثابت نہیں کر سکا کہ نیب ترامیم آئین سے متصادم تھیں، فیصلہ
  • سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ستمبر 2023 کو پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے متعارف کردہ نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔

ویب ڈیسک _ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق کی گئی ترامیم بحال کر دی ہیں اور فیصلے میں کہا ہے کہ کیس کے فریق عمران خان ثابت نہیں کر سکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے چھ جون کو نیب ترامیم کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے چیف جسٹس نے جمعے کو سنایا۔

بینچ میں شامل تمام ججز نے متفقہ طور پر نیب ترامیم کی بحالی کا فیصلہ دیا ہے۔ تاہم جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹ تحریر کیے ہیں۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو بلاوجہ کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ قانون سازی خلافِ آئین ہو تو بھی کالعدم نہ کی جائے۔

واضح رہے کہ جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت (پی ڈی ایم) اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں۔ لیکن اس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی۔

تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کر دیا گیا تھا۔

متعارف کردہ نیب ترامیم کے تحت قومی احتساب بیورو 50 کروڑ سے کم مالیت کی خرد برد کی تحقیقات نہیں کر سکتا، اس کے علاوہ نیب دھوکہ دہی کے ایسے کسی مقدمے کی تحقیقات نہیں کر سکتا جس میں ملزمان کی تعداد 100 یا اس سے زیادہ نہ ہو۔

ترامیم کے ذریعے نیب کو وفاقی اور صوبائی ٹیکس کے معاملات کی تحقیقات سے بھی روک دیا گیا تھا جب کہ ریگولیٹری اداروں اوگرا، نیپرا، پیمرا کو نیب کے دائرۂ اختیار سے نکال دیا گیا تھا۔

مذکورہ نیب ترامیم کو تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

عمران خان کی درخواست پر اُس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 15 ستمبر 2023 کو فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا۔ بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ بھی لکھا تھا۔

بعدازاں حکومت نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کی تھی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا دور کیسا رہا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:08 0:00

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے حکومتی انٹرا کورٹ اپیل کی درخواست پر جمعے کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تین رکنی بینچ کا فیصلہ ثابت نہیں کر سکا کہ نیب ترامیم آئین سے متصادم تھیں۔

عدالت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرلی ہیں۔ تاہم بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کی اپیل قابلِ سماعت نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کا استحقاق نہیں تھا کہ انٹراکورٹ اپیل دائر کرے۔ اپیل صرف متاثرہ فریق ہی دائر کر سکتا ہے۔

انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرنے والے بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ دیگر ججز میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔

فورم

XS
SM
MD
LG