رسائی کے لنکس

عدالتی فیصلے کے باوجود تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستیں کیوں نہیں مل رہیں؟


  • سپریم کورٹ کے فیصلے باوجود تحریکِ انصاف کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں نہیں مل سکیں۔
  • الیکشن کمیشن نے 39 ارکان کو تحریکِ انصاف کا رُکن قرار دیا ہے، تاہم باقی ماندہ ارکان کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
  • مسلم لیگ (ن) کے دو ارکانِ اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کا بل بھی ایوان میں پیش کیا ہے۔
  • الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم نہ کرنا قانونی پیچیدگیوں کا باعث بن رہا ہے: الیکشن کمیشن افسر
  • الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر رہنمائی کے لیے سپریم کورٹ سے رُجوع کیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کو تین ہفتے گزر جانے کے باوجود پارٹی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں یہ نشستیں الاٹ کرنے کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے عدالتی فیصلے پر نظرِثانی اپیل دائر کر رکھی ہے۔

الیکشن کمیشن نے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے 39، پنجاب اسمبلی کے 29، خیبرپختونخوا اسمبلی کے 58 اور سندھ اسمبلی کے چھ ارکان کو تحریکِ انصاف کے ارکان قرار دے کر فیصلے پر جزوی عمل درآمد تو شروع کر دیا گیا ہے۔ تاہم دیگر ارکانِ اسمبلی کو تحریکِ انصاف کا رُکن قرار دینے میں حائل قانونی رکاوٹوں پر سپریم کورٹ سے رُجوع کر لیا ہے۔

سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو سنائے گئے فیصلے میں کہا تھا کہ انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔

سپریم کورٹ کے 13 ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جب کہ پانچ نے اختلاف کیا تھا۔

رواں برس آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو بطور جماعت الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ پی ٹی آئی آئین کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔

انتخابات میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدواروں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا تھا جن کی بڑی تعداد انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی۔ بعدازاں تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کر لیا تھا۔

جب خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو کمیشن نے وہ نشستیں جو سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آنا تھیں وہ دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔

لیکن تحریکِ انصاف کو یہ نشستیں ملنے میں اب رکاوٹ کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اب بھی کچھ رکاوٹیں باقی ہیں جس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم نہ کرنا بھی شامل ہے۔

ماہرین کے بقول جب تک الیکشن کمیشن تحریکِ انصاف کی حمایت سے منتخب ہونے والے تمام ارکان کو پی ٹی آئی کا رُکن قرار دینے کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کر دیتا اس وقت تک یہ عمل مکمل نہیں ہو گا۔ تاحال الیکشن کمیشن نے 39 ارکان کو تحریکِ انصاف کا رُکن قرار دیا ہے۔ دیگر ارکان سے متعلق رہنمائی کے لیے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رُجوع کیا ہے۔

الیکشن کمیشن سپریم کورٹ سے کیوں رجوع کر رہا ہے؟

الیکشن کمیشن کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے دوران جن آزاد اراکان نے کاغذات نامزدگی میں تحریکِ انصاف سے وابستگی ظاہر کی تھی، انہیں پی ٹی آئی کا رُکن قرار دینے کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جن ارکان کو تحریکِ انصاف کا رُکن قرار نہیں دیا گیا، اُنہوں نے کاغذات نامزدگی میں نہ تو پارٹی وابستگی ظاہر کی تھی اور نہ ہی کوئی ٹکٹ جمع کرایا تھا۔

اُن کے بقول جو آزاد ارکان تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے ہیں ان کی لسٹ عمر ایوب نے الیکشن کمیشن کو بھیجی ہے اور اس پر چیئرمین تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر کے دستخط ہیں۔ لہذٰا اگر کمیشن اس لسٹ کے تحت ارکان کو تحریکِ انصاف کا رُکن قرار دے گا تو یہ انٹراپارٹی انتخابات کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔ لہذٰا اس قانونی رکاوٹ سے متعلق سپریم کورٹ سے رُجوع کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے افسر کا مزید کہنا تھا کہ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والوں کو جب تحریکِ انصاف کا رُکن قرار دیا جائے گا تو اس کے بعد ہی اسی تناسب سے پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی۔

اگر اس وقت تک جن اراکین کو پی ٹی آئی کے اراکین قرار دے دیا گیا ہے ان پر مخصوص نشستیں الاٹ ہوں گی تو پی ٹی آئی کو مجموعی طور پر 77 نشستین الاٹ نہیں ہو پائیں گی جس کے باعث ایک اور مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔

تحریکِ انصاف کو کس اسمبلی میں کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی؟

تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے مطابق پارٹی نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن کو جمع کرا دی ہے۔

تحریکِ انصاف کو قومی اسمبلی میں 22، پنجاب اسمبلی میں 27 خیبرپختونخوا اسمبلی میں 25 اور سندھ اسمبلی میں تین مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ناقابلِ عمل قرار دیا تھا۔

عدالتی فیصلے پر نظرِثانی کی اپیل کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ کے ذریعے بھی اس فیصلے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے یہ بل منگل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

وزیرِ قانون کی جانب سے مخالفت نہ کرنے کے باعث الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل 2024 مزید غور کے لیے کمیٹی کو بھجوا دیا گیا ہے۔

ترمیمی بل کے تحت الیکشن ایکٹ کی سیکشن 66 اور 104 میں میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔

ترمیم میں کہا گیا ہے کہ مقررہ نشان الاٹ کرنے سے اگر کسی اُمیدوار نے کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا بیانِ حلفی ریٹرننگ افسر کے سامنے جمع نہیں کرایا تو اسے آزاد اُمیدوار ہی تصور کیا جائے گا۔

سیکشن 104 میں مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مذکورہ بیان کردہ مدت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست جمع کرانے میں ناکام رہتی ہے وہ اس مرحلے کے گزر جانے کے بعد مخصوص نشستوں کے کوٹے کے لیے اہل نہیں ہو گی۔

سینئر صحافی نصرت جاوید کا کہنا ہے قومی اسمبلی میں پیش کردہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل کے متن سے ہی لگتا ہے کہ وہ بل مخصوص نشستوں کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد روکنے یا اس میں تاخیر کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل حکومت نے پیش نہیں کیا اس لیے بظاہر تو وہ بل حکومتی بل نہیں کہلائے گا مگر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے بل پیش کیا ہے جس کی حکومت نے مخالفت نہیں کی۔

اس بل کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کی صورت میں تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے میں قانونی رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے اور معاملہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ مگر بعض ماہرین کے مطابق اس بل کے متعلق سپریم کورٹ کوئی فیصلہ بھی کر سکتی ہے مگر اس میں بھی کچھ وقت لگے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG