رسائی کے لنکس

افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف مبینہ کارروائی؛ طالبان نے پاکستانی وفد کا دورہ منسوخ کر دیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • طالبان نے افغانستان کی حدود میں پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف مبینہ کارروائی کی بنیاد پر دورہ منسوخ کیا۔
  • ذرائع کے مطابق پاکستان کے وفد کی خواہش تھی کہ ٹی ٹی پی سے متعلق براہِ راست طالبان سپریم لیڈر کے ساتھ رابطہ استوار کیا جائے۔
  • افغانستان میں پاکستان کی کارروائی کی صورت میں حکومت کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے: ماہر افغان امور

اسلام آباد_ افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے سرحد پار دہشت گردوں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر حملے کو جواز بناتے ہوئے احتجاجاً پاکستانی وفد کا دورۂ قندھار منسوخ کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق کالعدم تنظیم، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیشِ نظر پاکستان کے ایک اعلیٰ سطح کے فوجی وفد نے اتوار کو قندھار کا دورہ کرنا تھا جسے طالبان حکومت نے آخری لمحات میں منسوخ کر دیا۔

اس بارے میں تاحال پاکستان کی فوج کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ وائس آف امریکہ کی جانب سے پاکستانی دفتر خارجہ کو بھیجے گئے تحریری سوال کا بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

طالبان حکومت نے بھی سرکاری سطح پر اس سفارتی وفد کے کابل آنے کے حوالے سے کوئی تصدیق یا تردید جاری نہیں کی ہے۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد کا دورہ گزشتہ ہفتے پاکستان سے افغانستان میں سرحد پار مبینہ حملے کے بعد منسوخ ہوا ہے جس میں ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے جنجگوؤں کے ہلاکت کی اطلاعات بھی ہیں۔

پاکستان کا سرکاری وفد ایک ایسے وقت میں افغانستان کا دورہ کر رہا تھا جب پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت نے ملک میں ہونے والے حالیہ حملوں کو بھی افغانستان سے جوڑا تھا۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کی فوج کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کو افغان سر زمین کی سہولت کاری حاصل ہے۔

فوجی ترجمان کے بقول بشام میں چینی انجینئرز پر ہونے والے خودکش حملے میں بھی افغان شہری ملوث تھا اور گاڑی بھی افغانستان میں تیار ہوئی تھی۔

قندھار کا دورہ کیوں؟

سینئر تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات پر ہمیشہ بیرونی دباؤ، جیو پولیٹیکل صورتِ حال اور سرحد پر سیکیورٹی مسائل اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان سے جانے والے وفد کی خواہش تھی کہ ٹی ٹی پی کے بارے میں طالبان سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ کے ساتھ براہِ راست رابطے استوار کیے جائیں۔ کیوں کہ کابل کی جانب سے انھیں اس معاملے پر اپنے تحفظات سے متعلق کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا۔

یاد رہے کہ طالبان قیادت نے ہمیشہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ان کا مؤقف رہا ہے کہ افغان سر زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ نہیں ہو رہا۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ہمیشہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے آئے ہیں۔

سمیع یوسفزئی کا مزید کہنا تھا کہ اتوار کو پاکستانی وفد کی افغانستان روانگی کی تمام تیاریاں مکمل ہوگئی تھیں۔ تاہم آخری لمحے پر سرحدی علاقے میں حملے کو جواز بناتے ہوئے افغان طالبان نے یہ دورہ منسوخ کر دیا۔

 افغان طالبان کا ہمسایہ ملکوں پرداعش کی حمایت کا الزام
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:34 0:00

سمیع یوسفزئی کے مطابق جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کو پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحدی علاقے میں ایک مبینہ حملے میں پانچ یا چھ افراد ہلاک ہوئے تھے جن کا تعلق ممکنہ طور پر ٹی ٹی پی سے بتایا جاتا ہے۔

افغان امور کے ماہر کے بقول افغانستان کے اندر پاکستان کی کسی بھی کارروائی کے نتیجے میں حکومت کو افغان عوام کے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ممکن ہے اسی دباؤ کے پیشِ نظر طالبان حکومت نے سرحدی علاقے پر ہونے والے حالیہ حملے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

سمیع یوسفزئی کے بقول گزشتہ تین برسوں کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کافی سرد مہری آئی ہے۔ بارہا کوششوں کے باوجود تجارت اور امن و امان بحال ہونے کے بجائے حالات مزید گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG