رسائی کے لنکس

مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر تشدد میں ملوث اسرائیلی آبادکاروں پر امریکی پابندیوں کا امکان


قبوضہ مغربی کنارے میں رملہ کے مشرق میں المغایر گاؤں کے قریب اسرائیلی آباد کاروں کے حملوں کے خلاف مظاہروں کے دوران ایک لڑکی فلسطینی پرچم اٹھائے ہوئے۔ فائل فوٹو
قبوضہ مغربی کنارے میں رملہ کے مشرق میں المغایر گاؤں کے قریب اسرائیلی آباد کاروں کے حملوں کے خلاف مظاہروں کے دوران ایک لڑکی فلسطینی پرچم اٹھائے ہوئے۔ فائل فوٹو

صدر بائیڈن نے اعلیٰ امریکی حکام کو مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر حملہ کرنے اور انہیں اپنے گھروں سے بے دخل کرنے والے انتہاپسند اسرائیلی آبادکاروں کے خلاف ویزہ کی اور دیگر پابندیاں لگانے سے متعلق اقدامات تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔

پولیٹیکو کی ایک رپورٹ کے مطابق جمعے کے روز بھیجےگئے ایک میمو میں وزیر خارجہ انٹنی بلنکن، وزیر خزانہ جینیٹ ییلن اور سینیئر معاونین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اداروں کو فوری طور پر مغربی کنارے میں تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے پالیسی تیار کرنے کی ہدایت کریں۔

اسی حوالے سے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ امریکہ مغربی کنارے میں شہریوں پر حملہ کرنے والے انتہاپسندوں کے خلاف ویزہ کے اجرا پر پابندیوں سمیت دیگر اقدامات کے لیے تیار ہے۔

میمو میں کہا گیا ہے کہ ان اقدامات کا ہدف ایسے افراد اور ادارے ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر ایسے اقدامات میں ملوث ہیں جو مغربی کنارے کی سلامتی یا استحکام کو خطرے میں ڈالتے ہیں ۔ شہریوں کو خوف زدہ یا انہیں نقل مکانی پر مجبور کرتے ہیں۔

مغربی کنارے میں رملہ کے قریب ایک شخص اپنے سمارٹ فون پر ایک جلے ہوئے مکان کی تصویر لے رہا ہے جسے اسرائیلی آبادکاروں نے نذر آتش کر دیا تھا۔
مغربی کنارے میں رملہ کے قریب ایک شخص اپنے سمارٹ فون پر ایک جلے ہوئے مکان کی تصویر لے رہا ہے جسے اسرائیلی آبادکاروں نے نذر آتش کر دیا تھا۔

جنوبی کنارے کے فلسطینیوں کو ایک مختلف جنگ کا سامنا

جنوبی اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے مہلک حملے کےبعد غزہ کی پٹی پر اسرائیلی طیاروں کی کارروائیاں شروع ہوئیں تو مقبوضه مغربی کنارے میں آباد فلسطینوں کے مطابق انہیں ایک مختلف قسم کی جنگ کا سامنا ہوا۔

راتوں رات علاقے کو بند کر دیا گیا۔ آبادیوں پر چھاپے مارے گئے، کرفیو کا نفاذ کیا گیا ، نوجوانوں کو پکڑا گیا، قید میں ڈالا گیا، مارا پیٹا گیا اورفلسطینیوں کے قصبوں پر اسرائیلی محافظوں نے دھاوے بولے۔

یہ حملے ایک ایسے وقت میں شروع ہوئے جب عالمی برادری کی توجہ غزہ کی صورت حال اور وہاں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر مرکوز تھی۔

مغربی کنارے کے شہر نابلس کے قریب ایک قصبے ہوارا میں اسرائیلی فوجی اور آبادکار ایک مکان کا جائزہ لے رہے ہیں۔
مغربی کنارے کے شہر نابلس کے قریب ایک قصبے ہوارا میں اسرائیلی فوجی اور آبادکار ایک مکان کا جائزہ لے رہے ہیں۔

مغربی کنارے میں خوف اور مایوسی میں اضافہ

اقوام متحدہ کے مطابق فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی آبادکاروں کے حملوں میں غیرمعمولی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ وہاں جنم لینے والی کشیدگی نے خوف اور مایوسی کے إحساس کو گہرا کر دیا ہے۔ فلسطینی نہ صرف اپنے روزگار اور گھروں سے محروم ہوئے ہیں بلکہ بعض واقعات میں تو انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔

مغربی کنارے کے ایک گاؤں قریوت کے 52 سالہ فلسطینی کسان صابری بوم نے اپنے بچوں کو اسرائیلی آبادکاروں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے گھر کی کھڑکیوں پر لوہے کے جنگلے لگوا لیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری زندگیاں جہنم بن گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی آبادکاروں نے ان کے گاؤں پر گرینیڈ پھینکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم جیل میں بند ہیں۔

یہ صابری کی ہی نہیں بلکہ مغربی کنارے میں آباد بہت سے فلسطینی کسانوں کی بھی کہانی ہے۔

مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کی ایک بستی۔
مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کی ایک بستی۔

مغربی کنارے کا سب سےہلاکت خیز سال

اسرائیل پرحماس کے حملے سے پہلے ہی موجودہ سال 2023 مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے گزشتہ 20 برسوں کے دوران سب سے زیادہ ہلاکت خیز بن چکا ہے۔ اس سال اب تک 250 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر ہلاکتیں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں ہوئی ہیں۔

7 اکتوبر سے اسرائیل اور حماس کے درمیان چھڑنے والی لڑائی میں اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 206 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔فلسطینی وزارت صحت نے بتایا ہےکہ 9 نومبر کو جنین پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج کے چھاپے میں 14 فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عسکریت پسند تھے۔

فلسطینی اتھارٹی کے ایک اہل کار غسان نے اے پی کو بتایا کہ آبادکاروں نے ہمارے زیتون کے تین ہزار درخت تباہ کردیے ہیں، جن میں سے کئی بہت قیمتی تھے ۔ انہوں نے گلہ بانوں کو بھی ہراساں کیا ہے۔ اور 15 بستیوں سے 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو اپنا گھر چھوڑ کر جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

امریکی صدر بائیڈن اور انتظامیہ کے دیگر عہدیدار متعدد بار آبادکاروں کے تشدد کی مذمت کر چکے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل نے اپنے دفاع کا حق استعمال کیا ہے۔

مغربی کنارے میں آباد ایک فلسطینی اپنی بھیڑوں کے ساتھ۔ بہت سے فلسطینی بھیڑیں پالتے ہیں۔
مغربی کنارے میں آباد ایک فلسطینی اپنی بھیڑوں کے ساتھ۔ بہت سے فلسطینی بھیڑیں پالتے ہیں۔

حملوں کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا ہے، آبادکاروں کی تنظیم

اسرائیلی آبادکاروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ریگوم کی عہدے دار نومی کاہن کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ آبادکاروں کے حملے اتنے بڑے پیمانے پر نہیں تھے جیسا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی بعض رپورٹس میں کہا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ بعض واقعات کا تعلق اپنے دفاع سے تھا اور کئی واقعات میں تشدد شامل نہیں تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کا تمام نظام نہ صرف تشدد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گابلکہ یہ اسے وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے لیے بھی کام کرتا ہے۔

مغربی کنارے کا حق دعویٰ

اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل نے ان علاقوں پر قبضے کے بعد وہاں یہودی بستیاں قائم کیں جہاں تقریباً سات لاکھ یہودیوں کو آباد کیا گیا۔

زیتون کی کاشت کے موسم میں ایک فلسطینی زیتون کا پودا لگا رہا ہے۔ جب کہ اسرئیلی آباد کار اس کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فوجی فلسطینی کسان کے تحفظ کے لیے وہاں موجود ہیں۔
زیتون کی کاشت کے موسم میں ایک فلسطینی زیتون کا پودا لگا رہا ہے۔ جب کہ اسرئیلی آباد کار اس کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فوجی فلسطینی کسان کے تحفظ کے لیے وہاں موجود ہیں۔

ان علاقوں میں فلسطینیوں کی تعداد 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے جن کی اکثریت کا تعلق زراعت کے پیشے سے ہے

فلسطینی اس علاقے کو اپنی مستقبل کی امکانی ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں جس کا صدر مقام یروشلم ہو گا۔

اسرائیلی آباد کاروں کا کہنا ہے کہ مغربی کنارا ان کا قدیم ترین اور آبائی وطن ہے۔وہ اس سرزمین پر ملکیت کا حقیقی اور دائمی حق رکھتے ہیں۔

فلسطینیوں سمیت زیادہ تر بین الاقوامی برادری مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتی ہےاور انہیں چھوڑنے کا مطالبہ کرتی ہے جب کہ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک متنازع علاقہ ہے اور یہاں تعمیر کی جانے والی اسرائیلی آبادیوں کی قسمت کا فیصلہ مذاکرات میں ہونا چاہیے۔

بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی بھی متنازع علاقے پر قابض فوج وہاں کے شہریوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ تقریباً چھ عشروں سے قابض اسرائیلی فورسز انہیں آبادکاروں کے حملوں سے بچانے میں یا تو ناکام رہی ہیں یا ان میں شامل ہوتی رہی ہیں۔

اس تحریر کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس، پولیٹیکو اور واشنگٹن پوسٹ سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG