رسائی کے لنکس

کندھ کوٹ میں گولہ پھٹنے سے آٹھ ہلاکتیں؛ 'بچوں نے راکٹ آگ میں پھینکا تو دھماکہ ہو گیا'


سندھ کے ضلع کندھ کوٹ میں کچے کے علاقے میں گھر میں راکٹ کا گولہ پھٹنے سے خاتون اور بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ پولیس نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

دور دراز علاقے کے باعث امدادی کارروائیوں میں تاخیر بھی ہو رہی ہے۔

واقعے سے متعلق سامنے آنے والی ابتدائی معلومات کے مطابق دھماکہ گھوڑا گھٹ کے علاقے میں اس وقت ہوا جب بچے راکٹ کا گولہ گھر لے آئے تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ لاشوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے اور اس معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔ واقعے میں پانچ افراد شدید زخمی بھی ہوئے ہیں جن کی حالت نازک ہے اور انہیں علاج کے لیے سکھر منتقل کیا جا رہا ہے۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) خیرپور روحیل کھوسو کے مطابق راکٹ بچوں کو گھر کے قریب واقع زرعی زمین سے ملا تھا۔ بچے اسے گھر لے آئے تھے جس کے بعد اس میں اچانک دھماکہ ہو گیا۔

یہ دھماکہ خیز مواد گاؤں تک کیسے پہنچا اس بارے میں پولیس نے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔


کندھ کوٹ سے صحافی میر علی اکبر بھنگوار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علاقہ مکینوں کے مطابق واقعہ ساوند اور سندرانی قبائل کے درمیان ایک دوسرے پر راکٹ فائر کرنے کا نتیجہ ہے۔

ان کے بقول ایک راکٹ کا گولہ نہ پھٹنے پر بھینسیں چرانے والے لڑکے راکٹ گھر لے آئے تھے۔ رات کے پہر بھینسوں کو مچھروں سے بچانے کے لیے دھویں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بچوں نے رات کے پہر راکٹ کو اچانک آگ میں پھینکا تو اس سے زور دار دھماکہ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ دھماکے سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ ہلاک ہونے والوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔ واقعے کے بعد پولیس اور رینجرز نے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔

ادھر نگراں وزیرِ اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کندھ کوٹ میں راکٹ دھماکے پر آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ معلوم کیا جائے کہ دھماکہ خیز مواد وہاں کیسے پہنچا اور کیا کوئی اسلحے کی کھیپ کچے میں اسمگل ہو رہی تھی؟

ترجمان وزیرِاعلیٰ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نگراں وزیر اعلیٰ سندھ نے آئی جی سندھ کو کہا ہے کہ گوٹھ میں ڈکیتوں کے کوئی سہولت کار ہیں تو اس بارے میں بھی معلوم کیا جائے۔

کندھ کوٹ، کشمور اور شکار پور سے ملحقہ کچے کے علاقے ڈاکو اور دیگر جرائم پیشہ افراد کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں اور وہاں کی سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ اس علاقے میں اینٹی ایئر کرافٹ گنز، راکٹ لانچر اور دیگر خطرناک ہتھیار بھی جرائم پیشہ افراد کے پاس ہیں۔

ان علاقوں میں قبائلی جھگڑوں میں قتل کے واقعات بھی عام ہیں اور کچھ عرصے قبل ہی سندرانی اور ساوند قبیلےکے درمیان جاری لڑائی اور خونی تنازعے کا نشانہ پروفیسر اجمل ساوند بھی بن چکے ہیں جو آئی بی اے سکھر سے وابستہ تھے۔

اس علاقے میں کئی مرتبہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کی کوشش بھی کی گئی لیکن ان کا صفایا ممکن نہیں ہوسکا ہے اور پولیس کو یہاں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

تاہم موجودہ نگراں صوبائی حکومت نے پولیس اور رینجرز کی مدد سے وہاں جرائم پیشہ افراد کے خلاف بڑے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے تاہم اس کے نتائج سامنے آنا ابھی باقی ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG