رسائی کے لنکس

نائیجر: ہنتا کا معزول صدر پر مقدمہ چلانے کا اعلان بلا جواز ہے، امریکی محکمہ خارجہ


نائیجر میں نیشنل کونسل فار دی سیف گارڈ آف دی ہوم لینڈ یا سی این ایس پی کے عہدیداروں کا خیر مقدم۔ فوٹو اے ایف پی۔
نائیجر میں نیشنل کونسل فار دی سیف گارڈ آف دی ہوم لینڈ یا سی این ایس پی کے عہدیداروں کا خیر مقدم۔ فوٹو اے ایف پی۔

ویب ڈیسک۔امریکی محکمہ خارجہ نے اس خبر پر مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ نائیجر کی 'نیشنل کونسل فار دی سیف گارڈ آف دی ہوم لینڈ' یا سی این ایس پی نے معزول صدر بازوم پر سنگین الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے معمول کی پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکہ کو اس بات پر مایوسی ہوئی ہے کہ معزول صدربازوم کی بلا جواز حراست ایک اور مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا،"سی این ایس پی صدر بازوم پر مقدمہ چلانے کی دھمکی دے رہی ہےجبکہ ان کا یہ عمل بلا جواز اور غیر منصفانہ ہے۔ اور اس بحران کے پر امن حل میں قطعاً مددگار نہیں ہوگا بلکہ یہ جمہوریت، انصاف اور قانون کی حکمرانی کی برملا توہین کے مترادف ہے۔"

اس سے پہلے اتوار کو نائیجر کے باغی فوجی رہنماؤں نے کہا تھاکہ معزول صدر محمد بازوم پر "سنگین غداری" اور" ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے" کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ ہنتا نے یہ اعلان ایسے میں کیا جبکہ گھنٹوں پہلے انہوں نے کہا تھا کہ شدید ہوتے علاقائی بحران میں وہ مغربی افریقی ملکوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

اگر جرم ثابت ہو گیا تو نائیجر کی پینل کوڈ کے تحت بازوم کو موت کی سزا ہو سکتی ہے۔

نائیجر کے صدر بازوم۔ فائل فوٹو
نائیجر کے صدر بازوم۔ فائل فوٹو

اتوار کو ہنتا کے ترجمان کرنل امادو عبدالرمان نے سرکاری ٹیلی ویژن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فوجی ہنتا نے ، "معزول صدر اور ان کے مقامی اور غیر ملکی ساتھیوں کے خلاف " سنگین بغاوت " اور نائیجر کی سلامتی کو " نقصان پہنچانے" کے الزامات کے بارے میں، ملکی اور غیر ملکی مجاز حکام کے سامنے پیش کرنے کے لیے ضروری شہادت حاصل کر لی ہے۔"

اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ ایفریقن اسٹیٹس یا ECOWAS اس بارے میں گفت و شنید کر رہی ہے کہ نائیجر میں سویلین حکومت اور منتخب صدر محمد بازوم کو ان کے عہدے پر کیسے بحال کیا جائے۔

بازوم کو گزشتہ ماہ بغاوت کے نتیجے میں فوج کے ملک پر قبضے کے بعد ان کے عہدے سے معزول کر دیا گیا تھا۔ مغربی اور وسطی افریقہ میں تین سال کے دوران فوجی بغاوت کا یہ ساتواں واقعہ تھا۔

اس بحران کے پر امن حل کی کوشش میں نائیجیریا کے صدر بولا تنیبو نے جو ایکو ویس ECOWAS کے چئیرمین بھی ہیں، نائیجر کے لیے مذہبی رہنماؤں کے ایک سفارتی مشن کی منظوری دی تھی۔

مذہبی رہنماؤں نے کئی گھنٹے تک ہنتا کے لیڈر جنرل عبدالرحمان تشینا کے ساتھ ملاقات کی۔ اطلاعات کے مطابق تشینا کہہ چکے ہیں کہ نائیجر اور نائیجیریا نہ صرف ہمسایہ ممالک ہیں بلکہ 'بھائی بہن' بھی ہیں اور انہیں مسائل دوستانہ انداز میں حل کر لینے چاہئیں۔

پیرس میں نائیجر کے سفارتخانے کے باہر احتجاج، فائل فوٹو۔
پیرس میں نائیجر کے سفارتخانے کے باہر احتجاج، فائل فوٹو۔

اگرچہ ECOWAS نے نائیجر میں فوجی مداخلت کی دھمکی دی تھی تاہم بظاہر لگتا ہے کہ اسے ایسا کرنے میں تامل ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ وہاں فوجی تعینات کرنے سے نائیجر میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔

مغربی افریقی ملکوں کے اس اتحاد کی جانب سے فوجی مداخلت سے علاقائی تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ مالی، برکینا فاسو اور گنی نے نائیجر میں فوجی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

ہفتے کے روز تشینا نے گنی کے دارالحکومت کوناکری میں ایک وفد بھیج کر ملک کی حمایت کا شکریہ ادا کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہنتا علاقائی اور دیگر طاقتوں کے مقابل اپنے حامیوں کے ساتھ اتحاد مضبوط بنانا چاہتی ہے۔

یورپ اور امریکہ کا موقف

ماہرین کے مطابق خطے میں سیکیورٹی کا تعاون جاری رکھنے کے لیے یورپ اور امریکہ کو آخرِ کار ہنتا کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

امریکہ اور فرانس کے 2500 سے زیادہ فوجی اہلکار اس علاقے میں تعینات ہیں اور اس نے دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر نائیجر کی فوجی امداد اور فورسز کی تربیت کے لیے کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

26جولائی کی بغاوت کو بہت سے مغربی ممالک کے لیے ایک دھچکہ خیال کیا جا رہا ہے۔ نائیجر یو رینیم پیدا کرنے والا چوٹی کا ملک ہے اور اب تک اسے القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ گروپ کی سب صحارا کے ساحل کے علاقے میں جاری کارروائیوں کے خلاف ایک مغربی اتحادی کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

تاشینا کا موقف ہے کہ ہنتا ملک کو دہشت گردی کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے میں زیادہ موثر ہو سکتی ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کہہ چکے ہیں کہ امریکہ ECOWAS کی جانب سے اس بحران کے پر امن حل کے لیے تمام امکانات مدِ نظر رکھنے کو سراہتا ہے اور بازوم کی سلامتی اور حفاظت کے لیے ہنتا کو ذمے دار ٹھہراتا ہے۔

مغربی ممالک کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر نائیجر نے مالی اور برکینا فاسو کی طرح جنہوں نے اپنے ملک میں بغاوت کے بعد یہی کیا تھا، سابق نو آبادیاتی طاقت فرانس کے فوجیوں کو اپنے ملک سے نکال دیا تو وہاں روسی اثرو نفوذ میں اضافہ ہو جائے گا۔

بازوم اور ان کے اہلِ خانہ کی صورتِ حال

نائیجر کے معزول صدر بازوم اور ان کے اہلِ خانہ کو ان کے گھر کے تہہ خانے میں بند رکھا گیا ہے۔ صدر کا کہنا ہے کہ انہیں تقریباً دس روز سے بجلی میسر نہیں ہے اور اپنے اہلِ خانہ یا دوستوں سے ملنے اور کھانے پینے کی اشیاء گھر میں لانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

ہفتے کے روز ایک ڈاکٹر نے بازوم کا معائنہ کیا تھا۔ فزیشن کی ٹیم نے اےایف پی کو بتایا کہ وہ ان کے اور ان کی بیوی اور بیٹے کے لیے کھانا بھی لے کر گئے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ " وہ جن حالات میں ہیں، ان کے لحاظ سے وہ بہتر حالت میں ہیں۔"

ایک مغربی فوجی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہنتا کے نمائندوں نے امریکی نائب وزیرِ خارجہ وکٹوریہ نولینڈ کے نائیجر کے حالیہ دورے کے موقعے پر انہیں بتایا تھا کہ اگر افریقی ملکوں کے اتحاد ECOWASنے فوجی مداخلت کی تو وہ بازوم کو ہلاک کر دیں گے۔

امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا ہے کہ انہیں اس بات پر مایوسی ہوئی ہے کہ نائیجر کی فوج نے "خیر سگالی " کے طورپر بازوم کے اہلِ خانہ کو رہا کرنے سے انکار کردیا ہے۔

( اس خبر کے لیے مواد اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے)

فورم

XS
SM
MD
LG