رسائی کے لنکس

سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے ڈبل گیم کھیلی، ایکسٹینشن دینا سب سے بڑی غلطی تھی: عمران خان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی۔ آئندہ فوج میں کبھی کسی کو ایکسٹینشن نہیں ملنی چاہیے۔

پاکستان کے نجی نشریاتی ادارے 'بول نیوز' پر میزبان عمران ریاض خان سے گفتگو میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا سابق آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر کہنا تھا کہ اس وقت حالات ایسے بنا دیے گئے تھے کہ اگر ایکسٹینشن نہ دی تو نہ جانے کیا کچھ ہو جائے گا جب کہ ملک کو استحکام کی ضرورت ہے۔ اس وقت نئے نئے حکومت میں آئے تھے اور مسائل بہت زیادہ تھے۔

انہوں نے سابق آرمی چیف کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ وہ کرپشن کو برا سمجھتے ہی نہیں تھے۔وہ یقین دہانیاں تو سب کو کراتے رہتے تھے اور لال بتی کے پیچھے لگا دیتے تھے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ڈبل گیم کھیلی ہے۔ ان کا رویہ انتہائی عجیب تھا۔ وہ تحریکِ انصاف ہی کے لوگوں کو کبھی کچھ پیغام دیتے تھے اور کبھی کچھ ۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ آخر میں ہوا کیا، جنرل قمر جاوید باجوہ سب کے سامنےآ گئے۔ان کے بقول وہ تو ایک ڈائری اٹھا کر وزیرِِ اعظم ہاؤس سے نکلے تھے۔اس کے بعد انہیں ذلیل ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہوا کیا؟ انہیں وہ عزت ملی جس کا زندگی میں تصور نہیں کیا تھا۔

خیال رہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2016 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ ان کی مدتِ ملازمت نومبر 2019 میں مکمل ہونی تھی البتہ ملک میں تحریکِ انصاف کی نئی حکومت آ چکی تھی، جس میں اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے کئی ماہ قبل اگست 2019 میں ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی تھی۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے اس اقدام کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی البتہ بعد ازاں درخواست گزار نے وہ درخواست واپس لے لی تھی لیکن ​اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس معاملے کو اہم قرار دے کر اس کی سماعت کی اور نومبر 2019 حکومت کو مسلح افواج کے سربراہوں کی ایکسٹینشن کے حوالے سے چھ ماہ میں باقاعدہ قانون سازی کا حکم دیا۔ ایسے میں جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی عارضی ایکسٹینشن دی گئی۔

حکومت نے قانون سازی کے لیے جنوری 2020 میں بل پہلے قومی اسمبلی میں پیش کیے جو کہ کثرت رائے سے با آسانی منظور ہو گئے۔ اس کے اگلے ہی دن سینیٹ میں بھی ایکسٹینشن کے حوالے سے قانون سازی کے بل منظور ہو گئے اور قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2022 تک تین سال کی ایکسٹینشن مل گئی۔

ہفتےکو دیے گئے انٹرویو کے دوران عمران خان نے کہا کہ کمزور آدمی ڈرتا ہے جب کہ دلیر آدمی لوگوں پر اعتماد کرتا ہے کہ جو اس سے کہا جا رہا ہے وہ سچ ہوگا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملنے کے بعد احساس ہوا کہ ان کی سب سے بڑی کمزور تھی کہ سابق آرمی چیف پر اعتماد کر لیتے تھے۔ جو بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کہتے تھے ان کو مثبت جواب دیتے تھے کہ ٹھیک ہے ملک کے لیے سب کچھ کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول ’’مجھے یہ پتا ہی نہیں تھا کہ کس طرح مجھے دھوکا دیا گیا اور جھوٹ بولا گیا۔‘‘

اپریل میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کے خاتمے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آخری دنوں میں معلوم تھا کہ حکومت کے خاتمے کی سازش ہو رہی ہے۔

ملک کے سویلین خفیہ ادارے انٹیلی جنس بیورو کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی بی کی رپورٹ موصول ہو گئی تھی کہ یہ گیم چل رہی ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ آئی بی کے افسران خوف کی وجہ سے کوئی رپورٹ تحریری طور پر نہیں دیتے تھے بلکہ وہ زبانی تمام معلومات ان تک پہنچاتے تھے۔ ان افسران کو ڈر ہوتا تھا کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے۔

عمران خان نے کہا کہ ان کو معلوم تھا کہ پوری گیم ہو رہی ہے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ ان کی بات نواز شریف سے بھی چل رہی تھی۔

انہوں نے ملک کے طاقت ور ترین خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کا نام لے کر کہا کہ جب جنرل فیض حمید کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تو اصل کھیل تو شروع ہو گیا تھا۔ یہ سب معلوم ہوتے ہوئے جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے وہ اس حوالے سے پوچھتے تھے تو وہ انہیں کہتے تھے کہ فوج تو حکومت کا تسلسل چاہتی ہے۔

حکومت کے خاتمے سے قبل اتحادیوں کے ساتھ چھوڑنے اور پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی بغاوت کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جب ان سے کہا کہ سب اشارے تو اسٹیبلشمنٹ کی جانب جا رہے ہیں تو جنرل قمر جاوید باجوہ کہتے تھے وہ تو نیوٹرل ہیں جب کہ ایم کیو ایم کے ارکانِ اسمبلی نے دبے الفاظ میں یہی بتایا۔ بلوچستان کے ارکانِ اسمبلی ان کے کنٹرول میں تھے۔

واضح رہے کہ رواں برس اپریل میں تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہونے سے قبل اس کی اتحادی جماعتیں ساتھ چھوڑ گئی تھیں جب کہ کئی ارکانِ اسمبلی بھی باغی ہو گئے تھے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کا ذکر کرتے ہوئے عمران ان کا کہنا تھا کہ ’’میں حیران تھا کہ وہ مجھ سے کچھ کہہ رہے ہیں جب کہ اشارے کچھ اور ہی مل رہے ہیں۔‘‘

سابق آرمی چیف سے ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے سابق وزیرِا عظم نے کہا کہ ایک دن ان سے کہا کہ واضح کر دیں کہ کس کے ساتھ ہیں۔ اگر حکومت کے ساتھ ہیں تو حکمتِ عملی کچھ اور ہو گی اور اگر نہیں، تو کچھ اور ہو گی۔ اس پر جنرل باجوہ نے کہا کہ دوسری حکمتِ عملی کیا ہوگی تو عمران خان کے بقول انہوں نے جواب دیا کہ وہ عوام کے پاس جائیں گے۔

اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ بھی ہوا اس کے حوالے سے باخبر ہیں کہ اس کے پیچھے سہولت کار موجود تھے۔

پی ٹی آئی کی حکومت رواں برس اپریل میں اس وقت ختم ہوئی تھی جب اس وقت کی حزبِ اختلاف اور موجودہ حکمران جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے قومی اسمبلی میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تھی۔

عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ البتہ عمران خان یہ الزام عائد کرتے رہے کہ ان کی حکومت بیرونی سازش کے ذریعےختم کی گئی لیکن اب وہ اپنے بیشتر الزامات سے پیچھے ہٹتے چلے جا رہے ہیں۔

انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ مونس الہی کو کہا گیا ہو گا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ چلو۔

اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری شجاعت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ تو مسلم لیگ (ن) کے اتحادی ہو گئے تو ان کو کہا گیا ہوگا کہ وہ ان کے ساتھ چلے جائیں۔ یہ تو ڈبل گیم چل رہی تھی۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما مونس الہی نے نجی چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ اُنہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحریکِ عدم اعتماد کے دوران عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے کہا تھا۔

عمران خان نے موجودہ حکومت کے حوالے سے کہا کہ ان کو لانے والے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ ملک کے معاشی حالات خراب ہو رہے ہیں۔ حکومت میں آتے ہی انہوں نے اپنے قرضے معاف کرا لیے ہیں۔یہ پھر کرپشن کر رہے ہیں۔ جیسے ہی حکومت ختم ہوگی یہ سب ملک سے باہر بھاگ جائیں گے۔

ان کے مطابق تحریک انصاف کو گزشتہ آٹھ ماہ میں جس قدر دبایا گیا ہے، اس سے پارٹی مزید اٹھی ہے۔

سیاسی حکمتِ عملی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر اسمبلیاں توڑ دیں تو 66 فی صد ملک میں انتخابات ہو ں گے ایسے میں پورا ملک رک جائے گا۔ ان کے بقول اگر مارچ میں انتخابات کرا دیں تو انتظار کر لیں گے۔ورنہ اسمبلیاں تحلیل کریں گے۔

پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الہیٰ تحریکِ انصاف کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے اتھارٹی دی ہے کہ جب چاہیں اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔

XS
SM
MD
LG