رسائی کے لنکس

اردو صحافت کے 200 سال:’عوام کو باخبر رکھنے کے سوا میڈیا کا ہر ایجنڈا پٹ جاتا ہے'


کراچی میں جاری عالمی اردو کانفرس چار دسمبر تک جاری رہے گی۔
کراچی میں جاری عالمی اردو کانفرس چار دسمبر تک جاری رہے گی۔

’’جوش صاحب نے کہا تھا کہ جو زبان روٹی نہیں دے گی وہ مر جائے گی۔‘‘یہ آواز تھی بھارت کے معروف صحافی سعید نقوی کی جو ویڈیو لنک کے ذریعے پاکستان میں صحافت پر ہونے والے ایک سیشن میں شریک تھے۔

’اردو صحافت کے دوسو سال‘کے موضوع پر یہ سیشن کراچی میں جاری پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ہونے والی دیگر نشستوں میں شامل تھا۔

اجلاس کے مقررین میں روزنامہ ' جنگ' کے سابق مدیر محمود شام، سینئر صحافی مظہر عباس، کالم نگار اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ جب کہ بھارت سے مصنف اور بین الاقوامی شخصیات کی انٹرویوز سے شہرت حاصل کرنے والے صحافی سعید نقوی شامل تھے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ کے سابق صدر ڈاکٹر توصیف احمد خان اس کی نظامت کررہے تھے۔

ہال میں نوجوانوں کی خاصی تعداد موجود تھی۔ صحافت سے متعلق گفتگو کی وجہ سے اس شعبے کےکئی اساتذہ اور طلبہ بھی نظر آئے۔صحافت سے متعلق مقررین کے کسی چبھتے ہوئے تبصرے یا دلچسپ فقرے پر ہال تالیوں سے گونج اٹھتا تھا۔

پینٹ کوٹ اور شلوار قمیص

سعید نقوی نے بھارت میں اردو کی صورتِ حال کے بارے میں معروف شاعر جوش ملیح آبادی کا یہ فقرہ دہرایا کہ ـ جو زبان روٹی نہیں دے گی وہ مر جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اردو صحافت بھارت میں محدود ہوتی جارہی ہے جب کہ دیگر کئی زبانوں کے اخبارات کی سرکولیشن میں اضافہ ہوا ہے۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ابتدا ہی سے اردو اور انگریزی اخبارات کامقام متعین کردیا گیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافت کے مؤرخ ضمیر نیازی نے اپنی کتاب ’پریس ان چینز‘ میں لکھا ہے کہ پاکستان سے امریکہ کے پہلے سرکاری دورے کے لیے انگریزی اخبار کے جن صحافیوں کو ساتھ لے جانا تھا، ان کے لیے پینٹ کوٹ اور اردو کے صحافیوں کے لیے شلوار قمیض سلوائے گئے تھے۔ ان کے بقول، یہیں سے اردو صحافت کا مقام متعین ہوگیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے کہ اردو صحافت کو قابو میں رکھا جائے اور اگر کسی نے مزاحمت کی بھی تو جو ان اخبارات کے ساتھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

ایڈیٹر کہاں ہے؟

پاکستان میں جب بھی صحافت پر کسی اجلاس میں شرکت کا موقعہ ملا تو کسی نہ کسی شکل میں یہ سوال ضرور زیرِ بحث آتے دیکھا ہے کہ صحافت میں پروفیشنل ایڈیٹر کا وجود ناپید کیوں ہوتا جارہا ہے؟

اجلاس کے میزبان ڈاکٹر توصیف کا اگلا سوال بھی یہی تھا جس پر روزنامہ جنگ کے سابق مدیر محمود شام نے کہا کہ جب سے مالکان ایڈیٹر ان چیف بننے لگے ہیں اخبارات میں ایڈیٹر کا ادارہ بھی اپنی معنویت سے محروم ہوتا گیا۔

سعید نقوی کا کہنا تھا کہ یہی صورتِ حال اب بھارت میں بھی ہے اور آج کئی بڑے اخبارات کے مدیروں کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں۔

لیکن سعید نقوی نے یہ اضافہ بھی کیا کہ بات اب ایڈیٹر سے بڑھ کر رپورٹر تک آچکی ہے اور اس کا کردار بھی غائب ہوتا جارہا ہے۔

’چھڑی بدلتی ہے تو پالیسی بدل جاتی ہے‘

مظہر عباس پہلے ہی اس جانب نشاندہی کرچکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سیاسی جماعت یا کسی ادارے کی پریس ریلیز ’اسٹاف رپورٹر‘ کے نام سے شائع ہونے لگیں تو رپورٹںگ کا معیار گرنا شروع ہوا۔

پاکستان میں میڈیا پر عائد ہونے والی سینسر شپ پر انہوں نے کہاکہ آج بھی کالم روکے جاتے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب حامد میر کو آف ایئر کیا گیا اور ان کا کالم بھی بند کردیا گیا۔ کئی اور اینکرز کو ان کے اداروں نے نکالا۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا سے متعلق رویہ نہیں بدلتا بس چھڑی بدلتی ہے تو پالیسی بدل جاتی ہے۔

مظہر عباس کی اس بات کے بعد ہال میں زور دار تالیاں بجیں اور معلوم ہوتا تھا کہ سامعین اس جملے میں کہی گئی بات کا مفہوم اچھی طرح سمجھ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی صحافت اردو سے ختم ہوتی جارہی ہے اور انگریزی اخبارات میں بھی اس کا معیار گر رہا ہے۔

محمود شام کا اس پر کہنا تھا کہ اب رپورٹر اپنے قاری سے زیادہ اپنی بیٹ سے مخلص ہوگیا ہے۔کسی حکومتی ادارے سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہوئے اس کی ترجیح خبر کو قاری تک پہنچانا نہیں بلکہ اس کی ہمدردیاں اس محکمے یا ادارے کے ساتھ ہوتی ہیں۔

یہاں پر سعید نقوی نے بھارت کی صحافت میں رپورٹنگ سے متعلق ایک ایسے مسئلے کی نشاندہی کی جس کا پاکستان کو بھی اسی شدت کے ساتھ سامنا ہے۔

لسبیلہ کی خبر اسلام آباد سے

سعید نقوی نے کہا کہ بھارت میں بہت کم ہی ایسے ادارے ہیں جو کسی بین الاقوامی مسئلے کی کوریج کے لیے اپنے نمائندے اس ملک اور خطے میں بھیجتے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور افغانستان جیسے ممالک میں بڑے بڑے میڈیا گروپ اپنے لوگ رپورٹنگ کے لیے نہیں بھیجتے۔

سری لنکا کےحالیہ بحران کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس ملک تک پینتالیس منٹ میں فلائٹ پہنچ جاتی ہے اس کی خبریں بھی ہمارا میڈیا خبر رساں اداروں سے دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں وہی ملک قیادت کرتے ہیں جو اپنی نظر سے دنیا دیکھتے ہیں۔ میڈیا مالکان کے پاس وسائل کی کمی نہیں۔ اگر وہ کسی بھی عالمی مسئلے پر اپنے رپورٹرز وہاں بھیجیں تو اپنے تناظر میں حالات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

اس پر مظہر عباس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سعید نقوی کی باتوں سے ایک بات تو ثابت ہوئی کہ بھارت کے میڈیا مالکان کا مائنڈ سیٹ اور صحافیوں کے مسائل پاکستان سے الگ نہیں۔

خبر رساں اداروں پر انحصار کے بارے میں محمود شام نے ایک دل چسپ واقعہ سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ ستر کی دہائی میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں جام غلام قادر خان آف لسبیلہ سے کوئی اختلاف ہوگیا جس کے بعد بڑی ہنگامہ خیزی ہوئی۔ اس خبر کو رپورٹ کرنے کے لیے بی بی سی کا نمائندہ اسلام آباد سے لسبیلہ آیا اور اس نے جو خبر دی تو وہ اگلے دن جنگ کی لیڈ تھی۔

جیسا معاشرہ ویسے کالم

پاکستان میں اردو صحافت پر ہونے والی کوئی گفتگو کالم نگاری کے بغیر آگے ہی نہیں بڑھتی۔ توصیف احمد خان نے کالم نگار سہیل وڑائچ سے پوچھا کہ پاکستان کے اردو کالم کیوں عالمی معیار کا مقابلہ نہیں کرپاتے اور ان میں سے اکثر ذاتی مصروفیات کی نذر ہوجاتے ہیں۔

اس پر سہیل وڑائچ نے کہا کہ کالم واقعی اس لیے نہیں ہے کہ اس میں ذاتی مصروفیات بیان کی جائیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ کالم نگاری نے پاکستان کی سیاسی و سماجی رائے عامہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معیار یقیناً بہتر ہوسکتا ہے لیکن معیار کا تعلق معاشرے سے بھی ہے۔ پاکستان میں جو فکر کا معیار ہے وہی کالم نگاری کا بھی ہے۔

اس پر آگے چل کر محمود شام نے کہا کہ کالم نگاروں کی اہمیت جنرل ضیاالحق کے دور میں بڑھائی گئی۔ پہلے مدیر ہی کالم نگار سے رابطے کا ذریعہ ہوتا تھا لیکن جنرل ضیا نے کالم نگاروں سے براہ راست ملاقاتیں اور مشاورت کرکے بیچ میں سے ایڈیٹر کو ہٹا دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے کالم نگاروں پر ایڈیٹوریل گرفت بھی کمزور ہوگئی۔

جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے

صحافت میں معروضیت، غیر جانب داری اور ایجنڈے کے سوال نصاب سے عمل تک بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ اردو کانفرنس کے اس اجلاس میں بھی یہ سوال در آیا۔

ڈاکٹر توصیف کے اس سول پر کہ کیا صحافت میں کوئی ایجنڈا ہونا چاہیے؟ سہیل وڑائچ کا جواب تھا کہ صحافت کا صرف ایک ایجنڈا ہوتا ہے کہ لوگوں کو باخبر رکھا جائے۔ اس کے سوا میڈیا کا کوئی بھی ایجنڈا ہوگا تو پٹ جائے گا۔

یہی سوال جب سعید نقوی سے کیا گیا تو انہوں نے برجستہ یہ مصرع پڑھ دیا کہ ایجنڈے کے سلسلے میں تو بھارت میں ’جدھر دیکھتا ہوں، ادھر تو ہی تو ہے‘ والا معاملہ ہے۔

دو اداریے

ایجنڈے کے سوال پر مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پہلے صحافت نامعلوم ہوتی تھی اب صحافی نامعلوم ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایجنڈے سے ہٹیں گے تو آپ بھی نامعلوم ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی کا کوئی ایجنڈا ہے تو اسے ڈیکلیئر کرکے صحافت کرے جس طرح یہ واضح ہے کہ ’روزنامہ جسارت‘ جماعت اسلامی کا ترجمان ہے یا کسی دور میں روزنامہ ’مساوات‘ پییلز پارٹی کا ترجمان تھا۔

انہوں ںے کہا کہ جب میڈیا اپنا ایجنڈا حکومت کو دیکھ کر بناتا ہے تو نقصان اٹھاتا ہے۔اس پر انہوں ںے اپنے دورِ طالب علمی کا ایک واقعہ سنایا کہ یونیورسٹی میں لیکچر کے لیے روزنامہ جنگ کے مدیر محمود مدنی آئے تو انہوں نے سوال کیا تھا کہ چار جولائی 1977 کو جب انہیں یہ اطلاعات مل رہی تھی کہ ملک میں مارشل لا آنے والا ہے تو انہیں نے کیا اداریہ لکھا تھا۔

مظہر عباس نے بتایا کہ اس پر محمود مدنی نے جواب دیا کہ اس دن دو ادارے لکھے گئے تھے۔ ایک میں مارشل لا کا خیر مقدم کیا گیا تھا اور دوسرے میں حکومت کی تعریف تھی۔

’اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح‘

سعید نقوی کا کہنا تھا کہ اسٹیٹس مین جیسے موقر اخبار جسے جواہر لعل نہرو صبح اٹھنے کے بعد سب سے پہلے پڑھا کرتے تھے وہاں انہیں یہ سکھایا گیا تھا کہ اخبار کا کام تنقید کے ساتھ حکومت کی حمایت تھا۔ یعنی آپ جو بھی تنقید کریں وہ اس لیے ہو کہ لوگوں کی منتخب کی گئی حکومت درست انداز میں چلتی رہے۔ صحافیوں کا کام حکومت گرانا نہیں ہے۔

سعید نقوی کا کہنا تھا کہ بھارت میں وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے 1975 میں ایمرجنسی نافذ کی اس کے بعد سے صحافت تقسیم ہونا شروع ہوئی کیوں کہ کچھ لوگ ان کے اس اقدام کے حامی اور ایک حلقہ شدید مخالف تھا۔ اس کے بعد بننے والی یہ خلیج آج تک پاٹی نہیں جاسکی۔

اس پر محمود شام نے ناطق لکھنوی کا ضرب المثل شعر پڑھا: اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح/ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح ۔

اس پر ہال تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا اور سعید نقوی نے اجازت چاہی۔

شیشے کے اس پار

مظہر عباس نے سیاست و صحافت کے تعلق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ایسا بھی ہوا کہ اخبار کے مالکان نے اپنے کسی مفاد کے لیے کوئی ایسا اسٹینڈ لیا جس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ وہ مجیب الرحمان شامی سے اس بات کی تصدیق کرکے ہی یہ واقعہ بیان کررہے ہیں کہ دائیں بازو کے مدیروں نے مارشل لا کے بعد ضیاالحق کو اکتوبر 1977 میں انتخابات نہ کرانے کا مشورہ دیا تھا۔ کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ بھٹو یہ انتخاب دوبارہ جیت جائیں گے اور اقتدار میں آکر دائیں بازو کے اخبارات وجرائد پر زمین تنگ کردیں گے۔

مظہر عباس نے بتایا کہ مجیب الرحمان شامی کے مطابق وہ ، مصطفی صادق اور صلاح الدین نوائے وقت کے مدیر مجید نظامی کے پاس گئےجنھوں ںے جنرل ضیاالحق سے ملاقات کا وقت لیا۔ ضیاالحق ان مدیروں سے ملاقات کے لیے لاہور آئے۔

جہاں یہ ملاقات ہورہی تھی وہاں کھڑکیوں شیشے بند تھے لیکن قریب ہی بیگم نصرت بھٹو کا جلسہ ہورہا تھا جس کی آواز کمرے تک آرہی تھی۔ مجیدنظامی نے جب انتخابات ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تو ضیاء الحق نے کہا کہ رائے عامہ بھٹو کے ساتھ ہے۔ جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ رائے عامہ تو وہی ہے جو شیشے کے پیچھے نظر آرہی ہے۔ لیکن اگر الیکشن ملتوی کرادیے جاتے ہیں تو رائے عامہ وہ ہوگی جو ہم بنائیں گے۔

اس پر میزبان ڈاکٹر توصیف احمد خان نے یہ اضافہ کیا کہ صحافت میں ان سمجھوتوں کی تاریخ ہے ،ایک دور وہ بھی تھا جب ’سول اینڈ ملٹری گزٹ' پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے پر مبنی مشترکہ اداریہ کئی اخبارات نے چھاپا تھا اور اس پر دستخط کرنے والوں میں مشہور ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔

صحافت لبرل ہوئی ہے

گفتگو کے اختتامی مراحل میں ڈاکٹر توصیف احمد خان نے شرکا سے سوال کیا کہ اردو صحافت پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اس نے معاشرے میں رجعت پسندی کو فروغ دیا؟

اس پر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ یہ صورتِ حال پہلے تھی۔ پہلے ادارتی صفحات پر دائیں اور بائیں بازو کے لکھنے والوں میں دائیں بازو کا پلڑا بھاری ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ صحافت زیادہ لبرل ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے باعث اب اخبارات بنیاد پرستی پر مبنی بہت سے مواد روک لیتے ہیں۔ اب تو کئی مرتبہ زیادہ کالم لبرل لکھنے والوں کے چھپ رہے ہوتے ہیں۔

محمود شام کا کہنا تھا کہ دیگر جو بھی کمزوریاں رہی ہوں کہ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سب سے زیادہ ترقی پسند لکھنے والے ادیب ہوں یا صحافی، اردو ہی نے پیدا کیے ہیں۔

بالآخر دو سو سال

اجلاس کا اختتامی سوال اس کے موضوع سے متعلق تھا کہ ان دوسو برسوں میں اردو صحافت نے کیا کھویا اور کیا پایا۔

اس پر سہیل وڑائچ کاکہنا تھا کہ اردو صحافت کے آغاز میں جس طرح مولوی باقر کو توپ سے اڑا دیا گیا تھا آج بھی کبھی حامد میر اور کبھی ارشد شریف کو نشانے پر لایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں سیاست اور صحافت سے وابستہ لوگوں ہی نے قربانیاں دی ہیں۔ سیاست دان پھانسی چڑھتے رہے ہیں انہیں قتل کیا جاتا ہے اور اسی طرح صحافی کبھی کوڑے کھاتے ہیں اور کبھی ان کی آواز خاموش کردی جاتی ہے۔

اجلاس کا وقت ختم ہوچلا تھا جس پر توصیف احمد خان نے شرکا سے کہا کہ وہ صرف ایک جملے میں اردو صحافت کے مستقبل کے بارے میں اپنی رائے دیں۔

اس پر سہیل وڑائچ نے تو فوری کہا ’تابناک‘۔ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ مالکان کے پاس وسائل کی کمی نہیں وہ اگر اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں تو بہتر مستقبل کی امید کی جاسکتی ہے۔

اردو کے پہلے اخبار ’جامِ جہاں نما‘ کی اشاعت 1822 میں ہوئی تھی اور اسی اعتبار سے 2022 کو اردو صحافت کے دو سو برس کی تکمیل قرار دیا گیا ہے۔ البتہ پورے سیشن میں اس کا تذکرہ نہیں ہوسکا۔ گفتگو اردو صحافت کی تاریخ کے بجائے ماضی و حال کے گرد گھومتی رہی اور ویسے بھی ڈیڑھ دو گھنٹے میں دو سو سال کی صحافت کی تاریخ کا احاطہ ممکن بھی نہیں ہے۔

کراچی میں جاری 15 ویں اردو کانفرنس چار دسمبر تک جاری ہے۔ اب تک اس کانفرنس میں زبان و ادب پر گفتگو کی نشستوں کے علاوہ قوالی، مشاعرے اور معروف ادیبوں کے ساتھ خصوسی نشستوں سمیت کئی پروگرام ہوچکے ہیں اور کئی ہونے والے ہیں۔

XS
SM
MD
LG