رسائی کے لنکس

کیا پاکستان میں بغیر سود بینکاری ممکن ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نےوفاقی شرعی عدالت کے سود سے متعلق فیصلے پر مرکزی بینک اور سرکاری کمرشل بینک نیشنل بینک آف پاکستان کی جانب سے دائر نظرِ ثانی کی اپیلیں واپس لینے کا اعلان ہے۔

وفاقی وزیر کے اس اعلان کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ کیا واقعی حکومت ملک سے سودی مالیاتی نظام کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوشش کر رہی ہے یا یہ سیاسی نعرے تک ہی محدود ہے اور کیا ایسا بینکاری نظام قومی اور پھر بین الاقوامی سطح پر قائم کرنا ممکن بھی ہے؟

وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو ایک پہلے سے ریکارڈ شدہ خطاب میں کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے ملک میں اسلامی بینکاری نظام کے فروغ کا فیصلہ کیا ہے اور وزیرِ اعظم شہباز شریف اور گورنر اسٹیٹ بینک کی مشاورت سے اسلامی بینکاری نظام کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق سود سے پاک بینکنگ نظام کو تیزی سے آگے بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ان کی جماعت نے اسلامی بینکاری نظام کو آگے بڑھایا تھا جب کہ اس بارے میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا گیا تھا۔

وزیر خزانہ کے بقول حکومت اسلامی بینکاری نظام کو آگے بڑھا رہی ہے کیوں کہ یہ شرعی و قانونی معاملہ ہے۔ حکومت کے نزدیک فیصلے کرنے کا معیار قرآن و سنت ہے۔

رواں سال جون میں اسٹیٹ بینک ، نیشنل بینک، ایم سی بی بینک، یونائیٹڈ بینک (یو بی ایل) اور الائیڈ بینک نے شریعت کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ میں چیلنج کیا تھا۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس وقت جاری ہونے والے مؤقف میں اگرچہ اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا تھا البتہ اس کیس کے فیصلے پر عمل درآمد اور عملی ہونے سے متعلق سپریم کورٹ کی شریعت بینچ سے مزید ’رہنمائی‘ طلب کرتے ہوئے اپیل دائر کی گئی تھی۔

شرعی عدالت کا کیا فیصلہ تھا؟

تقریباََ 31 سال سے وفاقی شرعی عدالت پھر سپریم کورٹ اور ایک بار پھر شرعی عدالت میں زیر سماعت رہنے والے کیس کا فیصلہ رواں سال اپریل میں تین رکنی بینچ نے سنایا تھا۔

یہ فیصلہ اس وقت کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی (جنہیں رواں سال اکتوبر میں دہشت گردی کے حملے میں قتل کر دیا گیا تھا)، جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین شیخ پر مشتمل تین رکنی بینچ کا متفقہ فیصلہ تھا۔

فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ بینکوں کے منافع کی تمام اقسام سود کے زمرے میں آتی ہیں اور سود کی تمام اقسام قرآن و سنت سے متصادم ہیں۔

شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا تھا کہ ربا اور سود سے متعلق موجودہ قوانین شریعت سے متصادم ہیں۔

عدالت نے سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ تمام وہ شقیں جن میں سود کا لفظ موجود ہے وہ کالعدم تصور ہوں گی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو، اس پر لاگو انٹرسٹ ربا کہلائے گا۔ بینکوں کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے۔

وفاقی شرعی عدالت نے بینکاری اور مالیاتی نظام کو سود سے پاک کرنے کے لیے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو پانچ سال یعنی سال 2027 تک کا وقت دیا تھا۔

اسلامی بینکنگ کا پاکستان میں تیزی سے فروغ

پاکستان میں روایتی بینکنگ کے ساتھ اسلامی بینکنگ نے بھی گزشتہ دو دہائیوں میں تیزی سے فروغ پایا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق اس وقت ملک میں 22 اسلامی بینکاری ادارے جس میں پانچ مکمل اسلامی بینک اور 17 روایتی بینکس بھی اپنے اسلامی بینکنگ نظام کے ساتھ تین ہزار 983 شاخوں کے نیٹ ورک کے ساتھ کام کررہے ہیں۔

روایتی شاخوں میں بھی لگ بھگ 1418 اسلامک بینکنگ ونڈوز قائم ہیں۔

مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اسلامی بینکنگ کی صنعت کا ملک کی مجموعی بینکاری میں 19.4 فی صد کا حصہ ہے اور اثاثوں میں ڈپازٹس کے لحاظ سے بھی یہ حصہ 20 فی صد ہے۔

اس کے باوجود پاکستان میں روایتی بینکنگ کے مقابلے میں اسلامی بینکاری نظام کی زیست پذیری پر کافی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

بینکنگ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے کئی مبصرین جہاں حکومت کی جانب سے اس متعلقہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے اقدام کو واپس لینے پر حکومت کی تعریف کررہے ہیں وہیں کچھ کا خیال ہے کہ یہ اعلان سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے زیادہ نہیں جب کہ بعض کا تو کہنا ہے کہ ملک کے تمام بینکاری نظام کو غیر سودی بینکاری میں منتقل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

’سال 2027 تک بلا سود بینکاری نظام تشکیل دینا ممکن نہیں‘

بینکنگ کے شعبےسے طویل عرصے تک منسلک رہنے والے اور بینک آف خیبر کے شریعہ بورڈ کے سابق رُکن ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے خیال میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں ابھی صرف دو فریقین نے واپس لی ہیں، مزید تین درخواست گزاروں نے درخواستیں واپس لینے کا کوئی اعلان نہیں کیا۔

ان کے بقول اس کا مطلب تو یہ ہے کہ عملی طور پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور حکومت کی جانب سے یہ بے معنی اعلان ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ابھی اس حوالے سے سپریم کورٹ میں شرعی ایپلیٹ بینچ قائم ہونا باقی ہے، جس کے بعد اپیلوں کی شنوائی کے لیے تاریخ مقرر کی جانی ہے جب کہ بہت زیادہ امکان ہے کہ عدالت اپیل کی سماعت کی ابتدا ہی میں شریعت کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک معطل کر دے، جس کے بعد یہ سماعت پہلے کی طرح طویل وقت لے سکتی ہے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ اس میں دوسرا نکتہ یہ بھی ہے کہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے یہ اعلان کرنا کہ نیشنل بینک کے ساتھ اسٹیٹ بینک بھی اس حوالے سے دائر اپیل واپس لے گا، آئی ایم ایف کو یہ پیغام دینا ہے کہ اسٹیٹ بینک خودمختار نہیں اور یہ اب بھی وزارتِ خزانہ کے ماتحت ہے۔ اسی لیے اسٹیٹ بینک نے وزیرِ خزانہ کے دباؤ کے تحت یہ اپیل واپس لی ہے، جس میں مرکزی بینک نے سپریم کورٹ سے اس حوالے سے بعض ہدایات دینے کی استدعا کی تھی۔

انہوں نے ایک اور نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ شریعت کورٹ کے فیصلے میں بھی کئی سقم ہیں۔

ان کے خیال میں بہت سے اسلامی بینک سودی کاروبار، اسلامی بینکنگ ہی کے نام پر کر رہے ہیں اور اس فیصلے سے ایسے بینکوں کے لیے گنجائش پیدا ہوگئی ہے جب کہ حکومت کی جانب سے شریعت کورٹ کے فیصلے کے تحت 2027 تک بینکاری نظام کو سود سے پاک کرنے کے لیے فی الحال تو کوئی عملی انتظامات نظر نہیں آتے۔

وزیرِ خزانہ کا اعلان مذہبی لابی کو مطمئن کرنے کی کوشش

ایک اور سابق بینکار، معاشی امور کے ماہر اور مصنف یوسف نذر کے خیال میں وزیرِ خزانہ کا سود سے پاک بینکاری نظام کو فروغ دینے سے متعلق حالیہ بیان مذہبی لابی کو مطمئن کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کوئی خاص تبدیلی ممکن نہیں۔ سود سے پاک بینکنگ کا کوئی وجود نہیں اوریہ صرف ایک نعرہ ہے جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے نظامِ عدل کا شمار دنیا کے بدترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ اس کی سپریم کورٹ کو ساکھ کے سنگین مسائل کا سامنا ہے جب کہ ملک میں مارشل لا دور میں قائم کی گئی شریعت کورٹ ایک متوازی عدلیہ ہے، جس سے انصاف کی فراہمی میں آسانی ہونے کے بجائے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔

اسلامی بینکنگ ایک حقیقت، منافع بخش بھی زیادہ

دوسری جانب فیصل بینک کے ہیڈ آف اسلامک بینکنگ فیصل شیخ اس حوالے سے یکسر مختلف مؤقف رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ روایتی بینکنگ سے اسلامی بینکنگ میں تبدیلی بالکل ممکن ہے اور اب یہ ایک حقیقت بن چکی ہے جب کہ وفاقی شرعی عدالت نے بھی اس حوالے سے پانچ سال کا وقت دیا ہے۔ بالفرض اگر اس میں مزید وقت بھی درکار ہوا، تو امید ہے کہ عدالت اس حوالے سے بھی لچک دکھائے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسلامی بینکنگ کے تحت کل اثاثے چھ کھرب 70 ارب روپے تک جاپہنچے ہیں۔ جب کہ اسلامک بینکنگ کی فنانسنگ کا شئیر 27 فی صد یعنی دو کھرب 90 ارب روپے ہے جو 2003 میں صرف 10 ارب روپے کا تھا۔ یہ اس کا بات ثبوت ہے کہ اسلامی بینکاری نہ صرف ممکن ہے بلکہ تیزی سے فروغ پارہی ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ کسی بھی کام میں شروعات کی طرح اس میں بھی مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مثال کے طور پر اب بھی ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے، جس سے اسلامی بینکنگ کی فنانسنگ کے ذرائع بہتر طریقے سے ایڈجسٹ ہوسکیں۔

فیصل شیخ کے مطابق اسلامی بینکاری میں سب سے اہم آپ کے اثاثے ہوتے ہیں کیوں کہ اثاثے ہونے پر ہی بینک ڈپازٹرز کو منافع دے پاتے ہیں۔ اسی لیے ان اثاثوں سے جو بینک کماتے ہیں اس میں سے منافع شئیر کیا جاتا ہے۔ اس لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے اثاثے اور سرمایہ کاری مناسب ہونا ضروری ہے۔

ان کے بقول اس حوالے سے سب سے اہم مسئلہ جو اب بھی کسی حد تک ہے، وہ یہ ہے کہ حکومت نے سکوک بانڈز طویل مدت کے لیے تو جاری کیے ہیں لیکن کم مدت کے لیے جاری نہیں کیے گئے۔

'پاکستانی سیاست دان خود جمہوریت کا اہمیت نہیں دیتے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:01 0:00

تاہم وزیرِ خزانہ کی جانب سے اسلامی بینکاری کو فروغ دینے کے اعلان کے بعد انہیں امید ہے کہ اس کی سپلائی میں بہتری آئے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فیصل بینک نے 2018 میں روایتی سے مکمل اسلامی بینک کی جانب سفر شروع کیا اور اس دوران بینک کی 211 روایتی شاخوں میں سے 210 کو مکمل اسلامی بینکنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور خالص اسلامی طریقۂ کار کے تحت کاروبار کیا جا رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بینک کے 96 فی صد اثاثے اسلامی اور فنانسنگ بھی 90 فی صد اسلامی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روایتی سے اسلامی بینکنگ کا سفر نہ صرف ممکن ہے بلکہ یہ عملی اور زیادہ منافع بخش ثابت ہوئی ہے جب کہ 2019 میں بینک کا منافع چھ ارب سے بڑھ کر 2021 میں آٹھ ارب روپے سے بھی بڑھ گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی بینک، روایتی بینکوں ہی کی طرح کام کرتے ہیں، درحقیقت ان کا اس حوالے سے تصور واضح نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے روایتی اور اسلامی بینکوں کے کام کے طریقۂ کار کو ملا جلادیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اسلامی بینکنگ پر تیزی سے کام جاری ہے اور یہ تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور عالمی سطح پر اسلامی بینکنگ کے معیار طے کیے جانے کے بعد اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG