رسائی کے لنکس

ڈی جی آئی ایس آئی کو خود میڈیا پر آنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟


پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل ندیم انجم کی غیر معمولی نیوز کانفرنس پاکستان کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا خود نیوز کانفرنس میں آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حالات کتنے سنگین ہیں۔

سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کا خود آ کر ردِعمل دینا ظاہر کرتا ہے کہ فوج اپنے خلاف بننے والے بیانیے پر شدید تشویش کا شکار ہے۔ ان پر لگنے والے الزامات، نیوٹرلز، جانور اور دیگر القابات دیے جانے سے فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور عمران خان کے بیانیے کے جواب میں انہوں نے اپنا سب سے بھاری ہتھیار استعمال کیا ہے۔

حالات کیا واقعی بہت سنگین ہیں؟ْ

دفاعی امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی شوکت پراچہ کہتے ہیں کہ نیوز کانفرنس کے لیے آنے والے تمام صحافیوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب یہ اعلان ہوا کہ ڈی جی آئی ایس آئی بھی پریس کانفرنس میں آئیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت پراچہ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف ارشد شریف تک محدود نہیں تھا، بلکہ یہ نیوز کانفرنس پی ٹی آئی کے بیانیے کا توڑ کرنے کے لیے بھی تھی۔

شوکت پراچہ کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ حقائق سامنے آنے چاہئیں، لیکن سوال یہ ہے کہ وطن پرستی کے نام پر عمران خان جو بیانیہ بنا رہے ہیں کیا اس پریس کانفرنس سے اس میں ڈینٹ پڑے گا یا نہیں؟


شوکت پراچہ کہتے ہیں کہ موجودہ ملٹری لیڈرشپ 20 سال سے حالتِ جنگ میں ہے، انہوں نے اپنے ساتھیوں کو مرتے دیکھا ہے اور انہیں اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ عمران خان لگاتار لیڈر شپ کے خلاف باتیں کررہے ہیں۔

سینئر دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کہتے ہیں کہ آج کی پریس کانفرنس واقعی غیر معمولی تھی، کیوں کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پالیسی بنائی تھی کہ ان کی تصویر کسی جگہ پر نظر نہیں آئے گی۔

لیکن آج انہوں نے اپنے اس اصول کو خود توڑا ہے جس کی وجہ واضح نظر آتی ہے کہ یہ انتہائی غیرمعمولی حالات ہیں۔ پاکستان فوج اور بالخصوص آئی ایس آئی پر الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ ایسے میں انہوں نے ان الزامات کا میڈیا پر آکر جواب دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں سیاسی تقسیم ہے، آئی ایس آئی کا نام اچھالا جارہا ہے، ڈی جی آئی ایس آئی اپنے ادارےکے تحفظ کے لیے سامنے آئے اور انہوں نے فوج کے غیرسیاسی ہونے کے حوالے سے بات کی۔

سینئر صحافی متین حیدر کہتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی میڈیا اراکین کو پسِ پردہ بریفنگز دیتے رہے ہیں جن میں وہ خود بھی شریک ہو چکے ہیں۔ لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ باقاعدہ پریس کانفرنس کی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں متین حیدر کا کہنا تھا کہ بہت سے صحافیوں نے یہ سوال اُٹھایا کہ آخر ڈی جی آئی ایس آئی کیوں منظرِ عام پر آنے پر مجبور ہوئے۔ ان سوالات کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ وہ قربانیاں دینے والے افسروں اور جوانوں کے لیے آئے ہیں۔


متین حیدر نے کہا کہ ملک اس وقت مشکل صورتِ حال سے نہیں بلکہ سنگین صورتِ حال سے گزر رہا ہے اور آج جنرل ندیم انجم نے بھی کہا کہ پاکستان کو بیرونی طور پر نہیں بلکہ پاکستان میں اندرونی طور پر عدم استحکام ہے اور ان کا واضح اشارہ عمران خان کی طرف ہی ہے ۔

متیں حیدر نے کہا کہ ارشد شریف کے معاملے پر بھی جس طرح سے آئی ایس آئی اور پاکستان فوج پر الزامات لگائے جارہے تھے اس پر بھی بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ عمران خان سمیت سلمان اقبال اور دیگر کو شامل تفتیش کیا جائے۔ یہ بھی اس ادارے پر لگے الزامات کا جواب ہے جن پر مزید تحقیقات جلد ہونا ضروری ہیں۔

کیا حکومت اور آئی ایس پی آر تحریکِ انصاف کے بیانیے کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے؟

اس سوال پر کہ کیا حکومتی ادارے اور آئی ایس پی آر اپنا بیانیہ عوام میں دینے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے ڈی جی آئی ایس آئی کو آنا پڑا؟

شوکت پراچہ کا کہنا تھا کہ سچ سامنے لانے کے لیے آپ کو اکثر بہت بڑی بڑی خفیہ چیزیں سامنے لانا پڑتی ہیں جیسے عمران خان اور آرمی چیف کی ملاقات کی تصدیق کی گئی۔ اس کے علاوہ آرمی چیف کو غیرمعینہ مدت تک توسیع کی پیش کش کا بتایا گیا، ظاہر ہے کہ یہ سب سچ ہے اور دوسری طرف سے اس کی تردید نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے بیانیے کا واقعی عوام پر بہت اثر ہوا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈی جی آئی ایس پی آر کے مختلف چینلز پر بیپرز اور حکومتی وزرا کی پریس کانفرنسز اتنی مؤثر نہیں ہو سکی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو خود میدان میں آنا پڑا۔

بریگیڈیئر حارث نواز کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج روزانہ ٹی وی پر آکر بیان بازی نہیں کرتی، آج ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے مل کر بہت سے الزامات کا جواب دیا ہے۔ انہوں نے فوج کے غیرسیاسی ہونے کے حوالے سے بات کی اور اس مقصد کے لیے وہ سامنے آئے ہیں۔


لانگ مارچ پر کوئی فرق پڑے گا؟

اس سوال پر کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کو اس پریس کانفرنس سے فرق پڑے گا؟

شوکت پراچہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کو عوامی سطح پر بڑی پذیرائی حاصل ہے ان باتوں سے اُن کی حمایت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، لیکن تحریکِ انصاف سے ہمدردی رکھنے والا معتدل طبقہ اس سے ضرور متاثر ہو گا۔

بریگیڈیئر حارث نواز کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس سے عمران خان کے لانگ مارچ پر فرق تو ضرور پڑے گا۔ لیکن وزیرِ داخلہ جس طرح کی سخت زبان استعمال کر رہے ہیں، اس کے بجائے وسیع تر سیاسی مفاہمت کے لیے بات کرنی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG