رسائی کے لنکس

ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ؛ حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے حکمران اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف کارروائی کو منقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کے خلاف قانونی اور فوجداری کارروائی عمل میں لائی جائے گی جوکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے، انسدادِ بدعنوانی اور پولیس کے دائرہ کار میں آتی ہے۔

حکمران اتحاد کی جانب سے اس اعلان کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ حکومت کے پاس الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی بنیاد پر کیا آپشن ہیں جن کے ذریعے پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔

الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کے معاملے کو وفاقی حکومت کو بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ یہ فنڈز ضبط کر لیے جائیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی طور پر بحث کے علاوہ اس فیصلے کے مختلف قانونی پہلو بھی ہیں، جو عدالت، حکومت اور الیکشن کمیشن کے دائرہٴ کار میں آتے ہیں۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ آنے کے بعد ثابت ہوگیا ہے کہ دیگر ممالک سے پاکستان آنے والی یہ رقم غیر قانونی ہے، لہذا اس پر ایف آئی اے کارروائی کر سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ممنوعہ فنڈنگ کو منی لانڈرنگ کے طور پر دیکھا جائے گا کیوں کہ اس کا ارسال کرنا غیر قانونی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ممنوعہ فنڈنگ کی مختلف پہلؤوں سے تحقیقات ہوں گی اور ابتدائی طور پر جن بینک اکاؤنٹس میں یہ رقوم ارسال کی گئی، انہیں منجمند کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اگلے مرحلے میں جن بینک اکاؤنٹس سے رقم بجھوائی گئیں ان سے بھی تحقیقات ہوں گی۔

بشیر میمن کہتے ہیں کہ بیرون ملک سے آنے والی ممنوعہ فنڈنگ کی تحقیقات کی روشنی میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگی اور ان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ انسداد منی لانڈرنگ کے تحت ان کو سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔

ایف آئی اے کے سابق سربراہ واضح کیا کہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا عمل سست ضرور ہوتا ہے لیکن اس عمل میں رقوم کی ترسیل غیر قانونی ثابت ہونے پر سزا سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ عرب ممالک میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے اور ان ممالک میں سیاسی سرگرمی کے ذریعے عطیات جمع کرنا وہاں کے مقامی قوانین کے مطابق بھی جرم ہے۔

دوسری جانب حکومت نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کے لیے قانونی ٹیم تشکیل دی ہے جس کی سفارشات جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی گئیں۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی اور تحقیقات کی جائیں گی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی کے سابق صدر یسین آزاد کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ جو دیگر خلاف ورزیاں ثابت ہوئی ہیں ان پر بھی کارروائی ہوگی۔ اسٹیٹ بینک نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے 28 بینک اکاؤنٹس ہیں، جن میں سے 13 انہوں نے ظاہر نہیں کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ معلومات کا چھپانا آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے اور اسی وجہ سے الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پی ٹی آئی نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دستور کی خلاف ورزی پر بھی پی ٹی آئی کے خلاف الگ سے قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

یٰسین آزاد کے مطابق معاملہ صرف یہیں تک نہیں رکتا بلکہ الیکشن کمیشن سے بحیثیت پارٹی سربراہ عمران خان نے بھی غلط بیانی کی اور جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا، جس کی بنیاد پر بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق دیا ہے اور اب جب کہ ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ دائر کیا جائے گا تو پی ٹی آئی اور عمران خان کی مشکلات بڑھیں گی۔سپریم کورٹ میں ریفرنس کے درست ثابت ہونے پر پی ٹی آئی پر پابندی لگ سکتی ہے اور اس کے تمام اراکین اسمبلی نااہل ہوجائیں گے۔

ان کے مطابق پی ٹی آئی اس وقت مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے اور ان کے پاس قانونی اور آئینی راستہ اپنانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا ہی آئینی و قانونی راستہ ہے۔ اس کے ذریعے اگر وہ حکمِ امتناع لے لیتی ہے تو متوقع حکومتی اقدامات سے وقتی طور پر بچا جاسکے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کے بعد پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ عمران خان کو مشکلات اور قانونی مراحل کا سامنا رہے گا۔

الیکشن کمیشن اس حوالے سے مزید کیا اقدام کر سکتا ہے؟ اس بارے میں سابق وفاقی سیکریٹری برائے الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ممنوعہ فنڈنگ کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ دے دیا ہے اور اب اس پر وفاقی حکومت کو مزید کارروائی عمل میں لانی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کنور دلشاد نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ممنوعہ فنڈنگ کے دیے گئے طریقۂ کار کے مطابق اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے اور پی ٹی آئی کا مؤقف سننے کے بعد اسے ضبط کرنے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

کنور دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے بطور پارٹی سربراہ یہ اقرار نامہ کہ جماعت کے حاصل کردہ عطیات میں ممنوعہ فنڈنگ نہیں ہے، کی بنیاد پر الیکشن کمیشن مزید کارروائی کر سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوگئی ہے تو الیکشن کمیشن عمران خان سے سوال کر سکتا ہے کہ کیوں نہ آپ کو غلط بیانی پر سزا دی جائے جو کہ اسمبلی رکنیت سے نااہلی بھی ہوسکتی ہے۔

تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اس معاملے پر کارروائی کی طرف نہیں جائے گا البتہ حکومت سرٹیفکیٹ کے معاملے کو لے کر سپریم کورٹ جاسکتی ہے۔

کنور دلشاد نے کہا کہ اس سارے معاملے میں الیکشن کمیشن پی ٹی آئی پر پابندی یا اسے ختم کرنے کی کارروائی نہیں کرسکتا البتہ ممنوعہ فنڈنگ کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے جماعت کا انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG