رسائی کے لنکس

 دس برس قبل ڈیورنڈ لائن پر لوگوں کو آنے جانے کی آزادی تھی؛ طالبان کی پاکستانی باڑ پر پھر تنقید


پاکستان افغانستان کے ساتھ سرحد کے بیشتر حصے پر باڑ نصب کر چکا ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان افغانستان کے ساتھ سرحد کے بیشتر حصے پر باڑ نصب کر چکا ہے۔ (فائل فوٹو)

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے نائب وزیرِ خارجہ شیر محمد عباس استنکزئی نے کہا کہ ان کی حکومت پڑوسی ممالک کے ساتھ مثبت اور فعال سیاسی تعلقات چاہتی ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ’پڑوسی ممالک کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کا مستقبل‘ کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیر محمد عباس استنکزئی نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان نقل و حمل کے حوالے سے کہا کہ دس برس قبل ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب لوگ آزادی سے آ جا سکتے تھے لیکن اب وہ صورتِ حال نہیں ہے۔

واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر لگائی گئی باڑ کی مخالفت سامنے آتی رہی ہے اور سرحد پر یہ باڑ اکھاڑنے کے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔کچھ ماہ قبل پیش آنے والے واقعات کے بعد پاکستان کے اعلی حکام نے طالبان حکومت سے سرحد پر استحکام قائم کرنے کے لیے اور اعتماد سازی کو فروغ دینے کے لیے مذاکرات بھی کیے۔

پاکستان نے مبینہ دہشت گرد حملوں کے بعد سلامتی کے اقدامات کےطور پر افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا تھا جو کہ لگ بھگ مکمل ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک کی اس سرحد کو تاریخی طور پر ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے۔

طالبان کے برسرِ اقتدار آنے سے قبل بھی اس باڑ کے حوالے سے دونوں ممالک میں تنازع موجود تھا۔

پاکستان کے افغانستان کے ساتھ قبائلی علاقے افغان جنگ کے دوران شدید شورش کا شکار رہےتھے۔ ان علاقوں کو پہلے وفاق کے ماتحت انتظامیہ دیکھتی تھی بعد ازاں ان علاقوں کو صوبہ خیبر پختون خواہ میں اضلاع کے طور پر ضم کیا گیا۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ’سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ ریجنل اسٹڈیز‘ میں اتوار کو ہونے والی کانفرنس سے خطاب میں شیر محمد عباس استنکزئی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان سے کسی ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ طالبان متواتر یہ زور دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ البتہ عالمی برادری ان سے مطالبہ کرتی رہی ہے کہ وہ ان وعدوں کو عملاً ثابت کریں اور ساتھ ہی انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنے وعدوں کی پاسداری کریں۔

اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کئی ہزار جنگجو افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور خود ٹی ٹی پی نے بھی پاکستان میں کئی دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

حال ہی میں پاکستانی حکام نے قبائلی جرگہ کے نمائندوں کی مدد سے افغان طالبان کی معاونت کے ذریعے ٹی ٹی پی سے مذاکرات بھی کیے ہیں۔ ان مذاکرات میں فریقین نے جنگ بندی پر بھی اتفاق کیا ہے البتہ اس کا کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا۔

اسلام آباد کالعدم ٹی ٹی پی کے علاوہ دیگر انتہا پسند گروہوں کو بھی اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسی لیے وہ دونوں ممالک کی سرحد پر باڑ لگانے کو درست قرار دیتا ہے۔

پاکستان افغانستان سرحد پر خاردار باڑ کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:10:23 0:00

پاکستانی حکام اس بات کی نشاندہی رتے ہیں کہ ملک کی سیکیورٹی فورسز اور شہریوں کو سرحد پار سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس لیے باڑ لگانا ناگزیر ہے ۔ امریکہ کے خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے علاوہ افغانستان میں القاعدہ اور داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کے اراکین بھی موجود ہیں۔

کابل میں ہونے والی کانفرنس میں طالبان کے نائب وزیرِ خارجہ شیر محمد عباس استنکزئی نے پڑوسی ممالک سے افغانستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کرنے پر بھی زور دیا۔

بعض رپورٹس کے مطابق شیر محمد عباس استکزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک پناہ لینے والے افغان مہاجرین کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔

واضح رہے کہ افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے لگ بھگ 30 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ اسی طرح ایران بھی ایک تعداد میں نقل مکانی کرکے آنے والے افغان شہریوں کا مسکن ہے۔

XS
SM
MD
LG