طالبان کی جانب سے نئی سفری پابندیوں کے نفاذ اور افغانستان سے انخلا کی پروازوں کی بندش کے بعد امریکی حکام طالبان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم رہتے ہوئے ان افغان شہریوں کو جو ملک سے نکلنا چاہتے ہیں محفوظ راستہ فراہم کریں۔
پچھلے برس اگست میں افغانستان میں قبضے کے بعد طالبان نے بین الاقوامی مطالبوں کو مانتے ہوئے اقرار کیا تھا کہ وہ ایسے تمام افراد کو جن کے پاس مکمل دستاویزات ہیں، ملک سے نکلنے کی اجازت دیں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے بدھ کے روز کہا تھا کہ حکام نے ان پابندیوں سے متعلق اپنی تشویش کا اظہار طالبان سے کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں اپنے حلیفوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کرنے کا انحصار طالبان کی جانب سے محفوظ راستہ دینے کے ان کے وعدوں کو پورا کرنے پر ہے۔ بقول ان کے، امریکہ یہ بات بار بار واضح کر چکا ہے۔
امریکی حکومت میں افغانستان کے امور کے نگران، ایئن میکیری نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا ہے کہ ایسے تمام افراد جن کی سفری دستاویزات مکمل ہیں ان کو ملک چھوڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
یہ تبصرہ ایسے موقع پر سامنے آیا جب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ افغانستان میں حکام کسی وجہ کے بغیر افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
برطانیہ میں افغانستان کے امور کے نگران ہیوگو شارٹر نے طالبان سے اس بیان کی وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ اس قسم کے اقدامات بین الاقوامی کمیونٹی کے ساتھ کیے گئے وعدے کے بھی برخلاف ہیں اور افغان شہریوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا بھی باعث ہوں گے۔
طالبان کے اس بیان پر تنقید کے بعد ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ان کا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ جن افغان شہریوں کے پاس مکمل قانونی دستاویزات نہیں ہیں اور وہ غیر قانونی طور پر باہر جانا چاہتے ہیں انہیں روکا جائے گا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ وہ شہری جن کے پاس مکمل دستاویزات ہیں اور انہیں باہر کے ملک سے دعوت بھی مل چکی ہے کہ وہ ملک سے باہر سفر بھی کر سکتے ہیں اور واپس بھی آ سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ طالبان کی جانب سے یہ ہدایات بھی رپورٹ کی جا چکی ہیں کہ جن لوگوں نے امریکہ اور نیٹو کے ساتھ کام کیا ہے انہیں داخلی اور خارجی اڈّوں پر آنے منع کیا جائے، جس پر ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ یہ رپورٹ درست نہیں ہے۔
یہ ہدایات افغان نیوز سائٹ 8 اے ایم ڈاٹ اے ایف نے رپورٹ کی تھیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود طالبان کی ان افراد کے سفر سے متعلق پالیسی ابھی تک غیر واضح ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افغان شہری جو بیرون ملک جانا چاہتے ہیں ملک میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سابقہ امریکی فوجی اور نو ون لیفٹ بی ہائنڈ نامی تنظیم کے شریک بانی میٹ زیلر کے مطابق افغانستان میں ڈھائی لاکھ ایسے افراد ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں جنہیں امریکہ کی جانب سے سپیشل امیگرینٹ ویزا، یا مہاجر کا سٹیٹس مل سکتا ہے۔
اگست سے اب تک ایک لاکھ 24 ہزار افغان شہریوں کا انخلا ممکن ہو سکا ہے۔
انسانی امداد کی تنظیم، ہیومن فرسٹ کولیشن کے ترجمان اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ایلکس پلٹساس کے مطابق پچھلے دس مہینے میں اب تک 10 ہزار سے زائد افغان شہری ملک سے نکالے جا چکے ہیں۔ ان کے مطابق نجی گروپوں نے اب تک دس کروڑ ڈالر سے زائد رقم انخلا کے عمل میں خرچ کی ہے۔
ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں قطری حکام اور طالبان کے مابین چپقلش کے باعث انخلا کی فلائٹس رک چکی ہیں۔ اس عمل سے واقف ایک امریکی افسر کے مطابق محکمہ خارجہ کی جانب سے کابل سے آخری چارٹرڈ فلائٹ 26 جنوری کے روز دوحہ پہنچی تھی۔
اس افسر کے مطابق محکمہ خارجہ کی جانب سے اس وقت اس سلسلے میں کچھ نہیں ہو رہا۔ اس کی وجہ ان کے مطابق طالبان اور قطری حکام کے معاملات ہیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اگرچہ آخری سرکاری فلائٹ کی تاریخ دینے سے گریز کیا، لیکن انہوں نے کہا کہ محکمے کی طرف سے امریکی شہریوں، قانونی طور پر مستقل رہائشیوں، افغان حلیفوں اور ان کے خاندانوں کو جو قانونی طور پر سفر کر سکتے ہیں اور افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں کی امداد کرتا رہے گا۔