رسائی کے لنکس

یوکرین پر روس کا حملہ: چین کا محتاط رد عمل


بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپل میں پوٹن کے دورہ چین کے دوران ضیافت کی میز پرسجی روس اور چین کی جھنڈیاں۔ 8 جون 2018ء (فائل فوٹو)
بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپل میں پوٹن کے دورہ چین کے دوران ضیافت کی میز پرسجی روس اور چین کی جھنڈیاں۔ 8 جون 2018ء (فائل فوٹو)

چین روس کا نہایت ہی طاقتوراتحادی ہے۔ چین کی جانب سے یوکرین پر روس کے حملے پر فوری ردعمل نہ دینے سے ماسکو کی کسی حد تک مدد ہوتی ہے، چونکہ بیشتر دنیا یہی چاہتی ہے کہ ماسکو کو فوری طور پر اقتصادی اور سفارتی سطح پر تنہا کردیا جائے۔

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے جمعرات کو ایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ " میں کہنا چاہوں گی کہ چین یوکرین کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے او ر ہم تمام فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور حالات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں''۔

انھوں نے کہا کہ ''ہمیں اب بھی امید ہے کہ متعلقہ فریق امن کے دروازے بند نہیں کریں گے۔، وہ بات چیت اور مشاورت سے صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکیں گے۔

بیجنگ میں مقیم ایک غیرملکی سفارتکار نے کہا ہے کہ یہ بیان یوکرین بحران پر چین کےحالیہ بیانات سے مطابقت رکھتا ہے، لیکن انھوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ہوا چن نے اقتصادی پابندیوں میں ماسکو کی مزید مدد کا کوئی وعدہ نہیں کیا ۔

سفارتکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ " یہ بات کم وبیش وہی ہے جو چین گزشتہ کچھ دنوں سے کہہ رہا ہے" کم از کم بیجنگ سےیہ توقع تھی کہ وہ ماسکو کو روس سے گیس کی خریداری کے حالیہ معاہدے پرقائم رہنے کی یقین دہانی کرائے گا"۔

اس کے باوجود ، ایسے آثار موجود ہیں کہ چین متوقع پابندیوں کے اثرات کو کم کرنےمیں روس کی مدد کرے گا، جن میں سے کچھ کا اعلان پہلے ہی کیا جاچکا ہے۔ چینی محکمہ کمسٹمز نے بدھ کو روسی گندم کی خریداری کے لیے ایک نیا آرڈر جاری کیا ہے۔

پریس بریفنگ کے دوران چین کی وزار ت خارجہ کی ترجمان نے مغربی صحافیوں کی اس بات سے اختلاف کیا آیا روسی فوجی کارروائی کو حملہ کہا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ حملے کی تعریف کے بارے میں میرے خیال میں ہمیں یوکرین کی موجودہ صورتحال کے پس منظر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ یوکرین کے مسئلے کا اور بھی پیچیدہ اور تاریخی پس منظر ہے جو آج تک جاری ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاملہ وہ نہ ہو جو ہر کوئی دیکھنا چاہتا ہے۔

دوسرے چینی ماہرین روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی دلیلوں کے حامی ہیں کہ ماسکو صرف مغربی جارحیت اور یوکرین میں روسی بولنے والی آبادی کے ساتھ ناروا سلوک کا جواب دے رہا ہے۔ انسٹیٹوٹ اف رشین ، ایسٹرن یورپین اور چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز کےسنٹرل ایشین اسٹیڈیز کے ایک ایسوسی ایٹ ریسرچ فیلو یانگ جن نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ روسی فوجی کارروائی ایک طویل عرصے سے مغربی ممالک کی جانب سے روس پر دباؤ ڈالنے کا ردعمل ہے؛ جو ظاہر کرتاہے کہ ماسکو اب مزید دباؤبرادشت نہیں کرے گا۔

چین کا مخمصہ:

اس بات کے آثار ہیں کہ بیجنگ مخمصے میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ وہ یوکرین پر روسی حملے کی حمایت یا جواز پیش نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس سے مغربی دنیاکے ساتھ اس کے سیاسی او ر تجاری تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔خاص طور پر چین ان مغربی ماہرین کی رائے کے بارے میں فکر مند ہے جو کہہ رہے ہیں کہ یوکرین پر حملہ چین کے لیے ایک آزمائشی معاملہ ہے، جس نے طویل عرصے سے تائیوان پر فوجی قبضے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا ۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس مرحلے پر لوگوں کی توجہ چین پر مرکوزہو۔

دوسری جانب وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اسے ایسے ملک کے طور پر دیکھا جائے جو اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے،جس کا اظہار گندم کی خریداری کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ سفارتکار نے کہا کہ بیجنگ سے توقع ہے کہ وہ روس پر اقتصادی دباؤکم کرنے کے لیے اسے مزید تجارتی مواقع فراہم کرے گا لیکن کسی بڑے سیاسی یا فوجی اقدامات سے گریز کرے گا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ پوٹن نے چار فروری کو بیجنگ کے دورے میں اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے یوکرین پر حملے کے ممکنہ نتائج کے بارےمیں مشورہ کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا ہےکہ انھوں نے ان نئے چیلنجوں پر قابو پانے کے ممکنہ طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا تھا جس کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں پیش آنے کے امکانات تھے۔

اسی دن روسی سرکاری پیڑولیم کمپنی گیز پروم نے اعلان کیا تھاکہ اس نے مشرق بعید کے راستے چین کو فراہم کی جانے والی گیس کی فروخت کے لیے تیس سالہ معاہدے پردستخط کیے ہیں۔ دونوں ممالک نے شمالی بحرہ بالٹک سے روسی گیس کو براہ راست جرمنی تک لے جانے کے لیے بنائی گئی نورڈ اسٹریم ٹو پائپ لائن کو کام سے روکنےکے ممکنہ یورپی فیصلے کی بھی تیاری کی تھی۔

امریکہ خاص طور پر چین اور روس کی مضبوط شراکت داری سے پریشان ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بدھ کو کہا کہ " ہم سجھتے ہیں کہ روس اور پیپلز ریپبلک آف چائنا ایک ایسا عالمی نظام چاہتے ہیں جو بہت زیادہ لبرل ہو۔ ایسا نظام جو اس نظام کے برعکس ہو جو دنیا بھر کے ممالک نے گزشتہ سات دہائیوں میں قائم کیا ہے۔ ایسا نظام جو تعمیری کے بجائے کئی لحاظ سے تباہ کن ہوگا''۔

XS
SM
MD
LG