امریکہ میں جنیاتی طور پر ترمیم شدہ خنزیر کا دل انسان میں ٹرانسپلانٹ کرنے کے تجربے کا پہلا مرحلہ 'زینو ٹرانسپلانٹیشن' کامیاب ہو گیا ہے۔ معالجوں نے بتایا ہے کہ مریض کےجسم نے اسے قبول کر لیا ہے؛ جس کے بعد 57 سالہ مریض ڈیوڈ بینٹ کے جسم میں لگا اس کا پرانا دل آج ہٹا لیا گیا اور اب وہ مکمل طور پر نئے ٹرانسپلانٹ دل پر نہ صرف زندہ ہے بلکہ بات چیت بھی کر رہا ہے۔
دنیائے صحت کا یہ تاریخی ٹرانسپلانٹ یونیورسٹی اف میری لینڈ بالٹی مور میں کیا گیا جس کے ڈائریکٹر پروگرام کارڈیک زینو ٹرانسپلانٹیشن ایک پاکستانی ڈاکٹر محمد منصورمحی الدین ہیں، جنھنوں نے کراچی کے ڈاو میڈیکل کالج سے طب کی تعلیم حاصل کی اور گزشتہ تیس برسوں سے اس یونیورسٹی میں زینو ٹرانسپلانٹیشن پر رسرچ کررہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد منصور محی الدین نے وی او اے کو بتایا کہ ہم نے سات جنوری کو جنیاتی طور پر ترمیم شدہ خنزیر کا دل مریض کو ٹرانسپلانٹ کیا تھا اور آج تک یہ مریض کےجسم میں بہترین طریقے سے کام کرہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ زینو ٹرانسپلانٹیشن کی خوبی ہے کہ اگر یہ جسم کے لیے موافق نہ ہو تو اسے ایک گھنٹے سے لے کر ایک دن کے اندر قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ لیکن،گزشتہ چار دن سے نہ صرف مریض کی حالت بہتر ہو رہی ہے، بلکہ اب اس کا پرانا دل نکال لیا گیا اور اس کے ساتھ لگایا گیا مشینی پمپ بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
بقول ان کے، ''یوں، ہم نے پہلے مرحلے کو کامیابی سے گزار لیا ہے اور اب صرف نئے دل کے ساتھ جسم کے بقیہ اعضا کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے انھیں انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے''۔
ڈاکٹر منصور محی الدین نے بتایا کہ وہ اور ان کی ٹیم گزشتہ کئی دہائیوں سے تحقیق میں مصروف تھی، اور اب اگلے مرحلے میں کلینکل تجربہ شروع کیا جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ دل کو انسانی جسم کے موافق بنانے کے لیے کلوننگ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔
اس ٹیکنالوجی میں اووری میں سے انڈے کو نکالا جاتا ہے اور اس میں موجود جنیاتی مواد نکال باہر کیا جاتا ہے۔ پھر نیا جنیاتی مواد اس انڈے میں ڈالا جاتا ہے اور پھر واپس اس انڈے کو اووری میں رکھ دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے بعد اووری میں پرورش پانے والا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا جنیاتی مواد وہ ہوتا ہےجو انسان نے بنایا ہوتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اسی طریقے سے ہم نے کام کیا، اور اپنی اشتراک کار کلوننگ کی کمپنی سے مدد لی جنھیں ہم نے بتایا کہ ہمیں یہ جین جنیاتی مواد میں سے نکالنے ہیں اور یہ اس کے اندر ڈالنے ہیں۔ ہم نے چار جین خنزیر کی نکلوا دیے، جس کی وجہ سے یہ انسان سے مختلف تھا، اگر اسے ہٹائے بغیر دل انسان کو لگا دیتے تو انسان کا جسم اسے قبول نہیں کرتا۔
''پھر ہم نے چھ نئے جین اس کے اندر داخل کرائے جس کی وجہ سے یہ خنزیر انسانی جین سے قریب تر ہو گیا۔ شکلیں نہیں بدلیں بلکہ جین کی ترتیب میں تبدیلی آ گئی''۔
انھوں نے بتایا کہ خنزیر کے اعضا انسان سے ملتے جلتے ہیں۔ ایک نو عمر خنزیر کا دل انسانی دل کی جسامت کا ہوتا ہے۔ اور جب انسانی دل سے اسے تبدیل کیا جائے تو یہ بالکل ویسا ہی کام کرتا ہےجیسا کہ انسانی دل۔
ڈاکٹر منصور محی الدین نے بتایا کہ وہ اس شعبے میں تقریباً 30 سال سے کام کر رہےہیں۔ ابتدا میں انھوں نے چھوٹے جانوروں میں اس طرح کی ٹرانسپلانٹشن کرنا شروع کی تھی، جس میں ایک جانور کے عضو دوسرے جانور میں لگایا جا تھا۔ پھر اس کے بعد اگے بڑھے اور بڑے جانوروں تک پہنچے۔ یعنی خنزیر کا دل زغون میں لگانا شروع کیا۔ پہلے ہم نے وہی جنیاتی طور پر تبدیل شدہ دل اس کے پیٹ میں لگایا اورساتھ ہی اس کا اپنا دل بھی لگا رہنے دیا۔
ڈاکٹر نے کہا کہ ہم یہ ٹیسٹ کرنا چاہتے تھے کہ جو دل ہم نے جنیاتی طور پر تبدیل کیا ہے اور جو دوا استمعال کی ہے، دونوں کے اشتراک سے اس کی زندگی کو طوالت ملی یا نہیں۔ جنیاتی طور پر تبدیل کیے اور اس جسم کے موافق بنائے بغیر پیوندکاری کریں تو یہ جسم فوری طور پر ایک منٹ کے اندر اسے مسترد کر دے گا۔ ہم نے یہ جنیاتی تبدیلیاں کیں تو وہ زغون تین سال تک زندہ رہا۔ اگلے مرحلے میں ہم نے یہ دل براہ راست سینے میں پیوند کرنا شروع کر دی۔
انھوں نے بتایا کہ ''اس موقع پر کچھ مشکلات درپیش آئیں جس پر ہم نے جین میں مزید ترامیم کیں اور چند ادویات بھی تبدیل کیں اور بالآخر اس مقام پر پہنچ گئے کہ مسلسل اس دل کو کافی عرصے تک کے لیے زندہ رکھنے میں کامیابی ملی۔ اسی سے ہمیں پتہ چلا کہ ہم یہی تجربہ انسان میں موثر انداز سے کر سکتے ہیں، جس کے بعد ہم نے انسان میں جنیاتی طور پر ترمیم شدہ دل لگانے کا یہ تجربہ کیا جو اب تک کامیاب جا رہا ہے۔
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ امریکہ میں اس طرح کا تجربہ کرنا آسان نہیں تھا۔ یہاں ایف ڈی اے جیسا ریگولیٹری ادارہ موجود ہے جو ہر وقت ادویات اور نئے تجربات کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ اس سے اجازت ملنا بڑا مشکل کام تھا اور پھر اس کام کے لیے وسائل بھی مہیا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اور جس پر تجربہ کیا جائے وہ بھی تیار ہو۔ یہ تمام مراحل طے ہوئے۔ ایف ڈی اے نے محض ایک تجربے کی اجازت دی اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب مریض کے پاس زندہ رہنے کی کوئی راہ نہیں بچی تھی۔
انھوں نے کہا کہ تمام طریقے سے ہم نے نہ صرف ترمیم شدہ خنزیر کو ایک ڈرگ کے طور پر بلکہ وہ خصوصی دوا جو ہم استعمال کر رہے تھے اور ساتھ ہی وہ مشین جو ہم امریکہ میں پہلی بار استعمال کر رہے تھے، جس میں دل کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ان تینوں چیزوں کی منظوری ایف ڈی اے نے دی۔ اس طرح ہم اس تجربے کے قابل ہوئے۔
''چونکہ ہماری ساکھ بہت اچھی تھی۔ ہمارے کارڈیک سرجن ڈاکٹر بارٹلے گریفتھ چالیس سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی کامیابی کی شرح بہت بلند تر ہے۔ انھوں نے ہی یہ دل ٹرانسپلانٹ کرنا تھا اس لیے ایف ڈی اے نے منظوری دے دی''۔
انھوں نے کہا کہ یہ کامیابی صرف ہماری یا ہماری ٹیم کی کامیابی نہیں بلکہ تمام ان انسانوں کی کامیابی ہے جو اعضا کے منتظر ہیں اور مطلوبہ اعضا دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ''دل ایک ایسا عضو ہے کہ جس کا کوئی متبادل نہیں۔ اگر گردے ختم ہو جائیں تو ڈائیلاسیز پر جا سکتے ہیں۔ مگر دل نے اگر کام کرنا چھوڑ دیا تو دنیا ختم''۔
ایک غیر سرکاری غیر منافع بخش ادارے، یونائیٹڈ نیٹ ورک فار آرگن شیئرنگ کے مطابق گزشتہ برس تقریبا 41345 امریکیوں میں اعضا کی پیوندکاری کی گئی۔ ان میں سے نصف کے گردے خراب تھے۔ لیکن پیوندکاری کے لیے دستیاب اعضا کی بہت زیادہ کمی ہے۔ ہر روز ایک درجن کے قریب امریکی اعضا کی پیوندکاری نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ تقریباً 3817 امریکیوں کو گزشتہ برس انسانی دل کا عطیہ مل گیا۔ لیکن، طلب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی لیے خنزیر کے دل کو انسانی جسم کے موافق بنانے کے کام پر سائنس دان مسلسل توجہ دے رہے ہیں۔
ایک سوال پر ڈاکٹر محی الدین نے بتایا کہ پہلی بار تجربہ کرنے پر صرف دل کی پیوندکاری پر ایک لاکھ ڈالر جب کہ دل کی جنیاتی طور پر تبدیلی، پیوندکاری اور مریض کے مکمل علاج پر تقریبا ڈیڑھ ملین ڈالر کے خرچ تخمینہ ہے۔
جب سے یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، دوسری باتوں کے علاوہ یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ آیا مذہبی طور پر خنزیر کے دل کی پیوند کاری جائز ہوگی یا نہیں۔ طبّی نقطہ نگاہ سے ڈاکٹر منصور کا خیال تھا کہ جب کسی کی جان پر پڑی ہو اور اس کے سامنے کوئی متبادل نہ تو وہ کیا کرے؟ انھوں نے بتایا کہ ماضی میں بھی علاج کی غرض سے بعض ادویات اور والو وغیرہ میں ایسی چیزوں کا استعمال ہوا ، جن پر لوگوں کو اعتراض ہوا اور بعد میں سائینسی ترقی کے ساتھ تبدیلی آتی گئی۔
انھوں نے کہا کہ میرا مقصد صرف انسانی جان بچانا ہے اور اسی مقصد کو لے کر میں چل رہا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم صحت مند لوگوں کے سامنے آپشن ہوتا ہے۔ وہ اس قسم کے اعتراضات اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن،جس کی جان پر بنی ہو ان میں سے ننانوے فیصد لوگ اسے قبول کر لیتے ہیں۔
اس تجربے کو مزید کن مراحل سے گزرنا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ اب اس کی کلینکل ٹرائل شروع ہو گی۔ یہ صرف ہماری یونیورسٹی میں نہیں بلکہ بہت سی اور جگہوں پر بھی ہوگی، جس کے لیے ایف ڈی اے کی منظوری لینا ضروری ہے اور پھر اس کام کے لیے سرکاری فنڈنگ اور کلونننگ کی صنعت سے بھی مالی مدد حاصل ہو سکتی ہے؛ جس کے بعد اس کام میں تیزی آئے گی۔
ڈاکٹر منصور محی الدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔ انھوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سول اسپتال میں ہاؤس جاب بھی کی، جس کے بعد وہ 1991 میں امریکہ آ گئے تھے۔ امریکہ آنے کے بعد سے وہ یہاں اس ادارے میں تحقیق اور تالیف میں مصروف ہیں۔
ڈاکٹر منصور ڈاؤ میڈیکل کالج کے سابق طلبا کی تنظیم کے منتخب صدر بھی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان اور ڈاؤ میڈیکل کالج ان کی شناخت بنے، تاکہ دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ بہتر بنانے میں ان کا کردار بھی شامل ہو۔ اور پاکستانی بچوں کو اس بات کا ادراک ہو کہ ان کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ لہذا، وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
انھوں نےکہا کہ وہ پاکستان میں بھی تحقیق و تالیف کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ جو کچھ انھوں نے یہاں آ کر سیکھا ہے ان کے تجربے سے پاکستان کو بھی فائدہ پہنچے۔