رسائی کے لنکس

کیا طالبان حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف کارروائیوں سے صرف نظر کر رہی ہے؟


پاکستان کی سیکیورٹی فورسز افغان سرحد سے ملحق سابق قبائلی علاقوں میں طالبان کی سرگرمیوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز افغان سرحد سے ملحق سابق قبائلی علاقوں میں طالبان کی سرگرمیوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کی دہشت گرد کارروائیوں پر بڑی جد و جہد کے بعد کافی حد تک قابو پایا لیا گیا ہے۔ تاہم ماہرین کے بقول اب یہ عسکری گروپ نئے خطرات پیدا کر رہا ہے۔

یہ گروپ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے اور طالبان کے اس دعوے کے باوجود کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے ہاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ طالبان جن کا اس وقت افغانستان پر کنٹرول ہے، ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے یا انہیں ملک سے نکالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

سابق سیکرٹری دفاع جنرل (ر) نعیم لودھی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اگر یہ مطالبہ کرے بھی اور ممکن ہے کہ دبے الفاظ میں پاکستان کی جانب سے یہ مطالبہ کیا بھی گیا ہو کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو اس کے حوالے کیا جائے تو اس پر طالبان حکومت راضی نہیں ہے، اور نہ ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کو سابقہ ادوار میں پاکستان مخالف قوتوں نے پاکستان پر دباؤ رکھنے کے لیے قائم کیا تھا۔ لیکن افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات میں انہوں نے افغان طالبان کا ساتھ۔ بھی دیا۔ ان سے بیعت بھی کی۔ اور اب طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان کے بہت قریب بھی ہیں۔ ایسے میں جب کہ طالبان اندرونی طور پر مشکلات کا شکار ہیں اور انہیں داعش جیسے دشمنوں کا سامنا ہے، جس کے مقابلے کے لیے انہیں ٹی ٹی پی جیسے اتحادیوں کی ضرورت بھی ہے۔ اس لیے یہ بات منطقی ہے کہ وہ ان سے بگاڑ پیدا نہیں کریں گے۔ اور اسی لیے جب پاکستان نے یہ معاملہ طالبان کے سامنے رکھا، تو انہوں نے کہا کہ وہ انہیں نکال تو نہیں سکتے لیکن اگر پاکستان ان سے بات چیت کر کے معاملات طے کر لے تو وہ یہ سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔

جنرل (ر) نعیم لودھی نے کہا کہ پاکستان کو یقیناً اندازہ تھا کہ مزاکرات کا نتیجہ کچھ نہیں نکلنا لیکن اتمام حجت کے لیے پاکستان نے یہ بات چیت کی۔ اس کی شرائط بڑی سادہ تھیں کہ ٹی ٹی پی، پاکستان کے آئین کو تسلیم کرے۔ اپنے ہتھیار پھینک دے اور شدید نوعیت کے جرائم میں ملوث اپنے لوگوں کو مقدمے چلانے کے لیے ان کے حوالے کر دے۔

دوسری جانب کالعدم ٹی ٹی پی کے بھی مطالبات تھے کہ پاکستان اپنی تحویل میں موجود ان کے کارکنوں کو رہا کرے۔ اس دوران کچھ عرصے تک جنگ بندی بھی رہی جو اب ختم چکی ہے۔

خیال رہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے بھی ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی نو دسمبر کو ختم ہو گئی تھی جس کے بعد سے ان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔

جنرل (ر) نعیم لودھی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اب صورت حال یہ بن رہی ہے کہ ادھر تو طالبان انہیں اپنی سرزمین سے آپریٹ نہیں کرنے دیں گے اور سرحد کے اس طرف پاکستانی حصے میں فوج انہیں نہیں چھوڑے گی۔

پاکستانی طالبان نے ماضی میں سوات کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہو کر اپنی عمل داری قائم کر دی تھی۔ مٹہ کے پولیس سٹیشن پر طالبان سٹیشن لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ فائل فوٹو
پاکستانی طالبان نے ماضی میں سوات کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہو کر اپنی عمل داری قائم کر دی تھی۔ مٹہ کے پولیس سٹیشن پر طالبان سٹیشن لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ فائل فوٹو

سابق سیکٹری دفاع کو توقع ہے کہ طالبان اپنا یہ وعدہ پورا کریں گے اور ٹی ٹی پی کو افغانستان کے اندر سے کارروائیاں نہیں کرنے دیں گے۔ اور بقول ان کے اس کے شواہد بھی مل رہے ہیں کہ جو حملے نظر آ رہے ہیں یہ ان سلیپر سیلز سے کیے جا رہے ہیں جو پاکستان کے اندر ہیں۔ اور جنہیں ہو سکتا ہے کہ اب بھی بیرونی مدد اور حمایت حاصل ہو ۔

لیکن ہاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان دونوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا، افغان طالبان کے لیے مشکلات بھی پیدا کر سکتا ہے۔ جنرل نعیم کے خیال میں اگر کسی مرحلے پرطالبان کو محسوس ہوا کہ ٹی ٹی پی کسی مصالحت کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ تحریک طالبان پاکستان کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دیں گے۔

ڈاکٹر حسین یاسا جرمنی میں مقیم ایک سینئر افغان صحافی ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات سے پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اور انہوں نے کچھ تعطل کے بعد پھر سے اپنی کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے تمام تر اخلاص کے باوجود افغانستان میں طالبان کی امارت اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ کوئی تعاون کرنے پر تیار نہیں ہے۔

بقول حسین یاسا، افغان طالبان پاکستانی طالبان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ اور ٹی ٹی پی نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ وہ طالبان کا حصہ ہیں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اس مسئلے پر پیش رفت کی جو امید تھی وہ پوری نہیں ہو گی۔

لیکن انہوں نے کہا کہ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ مسائل بھی زیادہ ہیں اور ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔ پاکستان اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے کہ خطے کے ممالک کو ساتھ ملا کر ایک ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے جس میں افغانستان میں آباد تمام قومیتوں کو اقتدار میں اس کا حصہ دیا جا سکے۔ بصورت دیگر اگر معاملات صرف طالبان پر چھوڑے گئے تو کسی کو کچھ حاصل نہیں ہو گا اور ایک مرتبہ تاریخ پھر خود کو دہرائے گی۔

XS
SM
MD
LG