رسائی کے لنکس

کراچی: 'جب گھر گرایا جا رہا تھا تو ایسے لگا جیسے کسی نے دل نکال لیا ہو'


 ایسے متاثرین جن کے مکمل یا 30 فی صد سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں ان کے لیے حکومت نے دو سال کے لیے 15 ہزار روپے ماہانہ کرائے کا اعلان کیا ہے۔
ایسے متاثرین جن کے مکمل یا 30 فی صد سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں ان کے لیے حکومت نے دو سال کے لیے 15 ہزار روپے ماہانہ کرائے کا اعلان کیا ہے۔

ماریہ بی بی نے کراچی کی کوثر نیازی کالونی ہی میں آنکھ کھولی اور اپنی زندگی کی 30 بہاریں اسی علاقے کی گلی محلوں میں گزار دیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے والدین اور ان کے دیگر رشتہ دار بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے اسی علاقے میں رہائش پزیر ہیں۔ یہ کالونی کراچی کے ایک بڑے نالے کے کنارے پر ہی واقع ہے۔

تیرہ کلو میٹر طویل اس گجر نالے کے اطراف میں قائم بستیوں کو مسمار کرنے کے لیے جو آپریشن شروع ہوا تھا وہ اب بھی جاری ہے۔ اس آپریشن کی زد میں ماریہ بی بی جیسے ہزاروں افراد کے گھر آ چکے ہیں۔ کئی کے گھر مکمل طور پر مسمار کیے جا چکے ہیں اور بہت سے ایسے گھر ہیں جنہیں جزوی طور پر توڑا گیا ہے۔

گجر نالا نیو کراچی سے لے کر ایف سی ایریا تک پھیلا ہوا ہے جس میں نہ صرف کوثر نیازی کالونی بلکہ اس کے علاوہ گودھرا، لیاقت آباد، گلبرگ ٹاؤن، بفر زون اور موسیٰ کالونی جیسے گنجان آباد علاقے بھی آتے ہیں۔

ماریہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس کا احساس بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ گھر جہاں انہوں نے آنکھ کھولی، بچپن گزارا ایک دم بغیر کسی نوٹس کے گرا دیا جائے گا۔

ماریہ نے روہانسی آواز میں کہا کہ "جب گھر گرایا جا رہا تھا تو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے دل نکال لیا ہو۔ آپریشن کرنے والوں نے ہمیں اتنی مہلت بھی نہ دی کہ اپنے ٹوٹے ہوئے گھر سے مرحوم والدین کی تصاویر ہی نکال لی جائیں۔"

یہ درد بھری کہانی صرف ماریہ ہی کی نہیں بلکہ تجاوزات قرار دیے گئے اس غریب بستی سمیت گجر نالے کے 13 کلو میٹر دائیں اور 13 کلو میٹر بائیں جانب جابجا بکھری ہوئی ہیں۔

سید عابد حسین کے تین بچے ہیں جو ابھی زیرِ تعلیم ہیں۔ وہ خود معمولی کام کاج کرتے ہیں اور 60 گز کے مکان کا کچھ حصہ انہوں نے کرائے پر بھی دے رکھا تھا۔

علاقے میں تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو عابد کو یقین تھا کہ ان کا گھر آپریشن کی زد میں نہیں آئے گا, کیوں کہ ان کے پاس تو مکان کی کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن اور ڈپٹی کمشنر ضلع وسطی سے جاری کردہ باقاعدہ لیز دستاویزات موجود تھیں۔ لیکن ان کا یقین اس وقت چکنا چور ہو گیا جب ان کے تین منزلہ مکان کو لیز دستاویزات دکھانے کے باوجود منٹوں میں مسمار کر دیا گیا۔

وائس آف امریکہ کو لیز کے کاغذات دکھاتے ہوئے سید عابد حسین کہتے ہیں کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کہاں جائیں۔ اینٹی انکروچمنٹ والوں نے ان کی ایک نہ سنی۔ یہی مکان ان کا کُل اثاثہ تھا اور وہ بھی اب چلا گیا۔

ان کے بقول، "یہ مکان لیے ہوئے مجھے تقریباً 15 سے 20 سال ہو گئے ہیں۔ مکان کی لیز کے ساتھ میرے پاس عدالت کا اسٹے آرڈر بھی موجود تھا۔ اس کے باوجود پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کے ساتھ اینٹی انکروچمنٹ والوں کی ٹیم آئی اور انہوں نے ایک نہ سنی اور مکان توڑ دیا۔"

عابد حسین کہتے ہیں ان کے بچے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جنہیں مجبوراً رشتہ داروں کے ہاں چھوڑ کر آنا پڑا ہے۔

گجر نالے کے اطراف بستی کے مکین یہ سوال بھی اٹھاتے نظر آئے کہ چار دہائیوں سے قائم یہ علاقے اچانک کس طرح ناجائز اور تجاوزات ہو گئے ہیں۔

ماریہ بی بی کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان کم از چالیس سال سے یہاں مقیم تھا لیکن اچانک چند ہفتوں پہلے معلوم ہوا کہ ان کا گھر تجاوزات ہے اور اب حکومت نے انہیں توڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ماریہ بی بی
ماریہ بی بی

ماریہ کا کہنا تھا کہ اگر یہ واقعی غیر قانونی اور ناجائز تعمیرات تھیں تو کیا حکومت پہلے سو رہی تھی؟ یہاں گزشتہ چند برسوں میں ہزاروں مکانات بن گئے، کئی منزلیں بنیں، لوگ آباد ہو گئے اور اب اچانک سے کہا جا رہا ہے کہ یہ سب ناجائز ہے۔

ماریہ کی آنکھوں میں آنسو اور لہجے میں تلخی نمایاں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ہی دن میں مکان سے نکال کر کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور کر دیا گیا۔آخر کیوں؟ ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟

ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم سینئیر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ کراچی بشیر صدیقی کے پاس پہنچے۔

بشیر صدیقی کا کہنا تھا کہ چالیس پچاس سال سے کراچی کو قبضہ مافیا نے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا، جس کی وجہ سے سڑکیں، پلاٹس، پارک، خالی زمینیں، کھیل کے میدان اور دیگر جگہیں سب قبضہ ہو چکی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ فٹ پاتھوں اور نالوں پر تجاوزات کی اس قدر بھرمار ہو چکی تھی کہ گزشتہ برس شدید بارشوں سے شہر میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی۔ پانی کی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے گھر ڈوب گئے، کئی افراد کی اموات ہوئیں، لوگوں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا جب کہ شہر کی ٹریفک کا نظام کئی کئی دن درہم برہم رہا۔

بشیر صدیقی کے بقول سپریم کورٹ کی واضح ہدایات جاری ہونے کے بعد شہر میں تجاوزات ہٹانے کا عمل شروع ہوا، جس کے تحت نہ صرف نالوں سے بلکہ پارکس، رفاعی پلاٹس اور دیگر زمینوں سے بھی تجاوزات ہٹانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ جو اس سے پہلے مختلف وجوہات کی بنا پر ممکن نہیں تھا۔

ان کے بقول، "نالوں سے تجاوزات ہٹانے کے معاملے پر انتطامی کارروائی شروع ہوئی، سروے ہوا اور نالے پر آنے والے گھروں کو نوٹس جاری کیے گئے جس کے بعد یہاں آپریشن شروع کیا گیا۔

عابد حسین
عابد حسین

انہوں نے بتایا کہ اس وقت شہر کے تین بڑے نالوں پر کام جاری ہے جن میں اورنگی نالا، گجر نالا اور محمود آباد نالا شامل ہیں۔ کئی نالوں پر 70 فی صد تجاوزات ہٹائی جا چکی ہیں۔

بشیر صدیقی کہتے ہیں قبضہ مافیا کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ یہاں پر قبضے کر کے لوگوں کو زمینیں بیچ دیتے تھے اور یوں چند روز میں ہی نئی بستیاں بن جاتی تھیں۔یہی نہیں کے ایم سی کی زمین پر کے ڈی اے اور کے ڈی اے کی زمین پر بورڈ آف ریونیو یا دوسرے علاقوں کی جانب سے لیز دینے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد کراچی کی تمام لینڈ مینجمنٹ اتھارٹیز ایک چھتری تلے جمع ہوئیں جس کی روشنی میں ایسی تمام تجاوزات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایسے متاثرین جن کے مکمل یا 30 فی صد سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں ان کے لیے حکومت نے دو سال کے لیے 15 ہزار روپے ماہانہ کرائے کا اعلان کیا ہے اور کئی متاثرین کو یہ دینا بھی شروع کر دیا ہے۔

بشیر صدیقی کے مطابق متاثرین کو وفاقی حکومت کی جانب سے نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت گھروں کی فراہمی میں ترجیح بھی دی جائے گی۔

دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اس آپریشن سے گجر نالے کے اطراف میں رہنے والے تین ہزار 957 افراد کو چیکس دیے جائیں گے۔ تاہم، متاثرین کی تنظیم گجر نالا ریزیڈینٹ کمیٹی کے اسرار احمد کا کہنا ہے کہ اصل مکانات جو اس آپریشن سے متاثر ہوئے ہیں ان کی تعداد لگ بھگ 18 ہزار کے قریب ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد ان کے خیال میں پانچ سے چھ لاکھ بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرائے کی مد میں دی جانے والی رقم کو حکومت معاوضہ قرار دے رہی ہے اس طرح قانونی طور پر متاثرین مزید معاوضہ حاصل کرنے کے اہل نہیں ہو پائیں گے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اگست 2020 میں کراچی شہر اور بالخصوص نالوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلے کی روشنی میں تجاوزات ہٹانے کا عمل رواں برس کے شروع سے جاری ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدالت کے احکامات کے مطابق نالے کے اطراف موجود گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدالت کے احکامات کے مطابق نالے کے اطراف موجود گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے حال ہی میں گجر نالے کے ان بعض متاثرین کی درخواست بھی مسترد کر دی تھی جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کے لیز مکانات کو بھی توڑا جا رہا ہے۔ البتہ اعلیٰ عدالت نے حکومتِ سندھ کو کہا تھا کہ وہ متاثرین کی بحالی کے لیے جامع پلان تیار کرے۔

گزشتہ برس بارشوں کی تباہ کاری کے بعد بنائی گئی صوبائی عمل درآمد اور کوآرڈینیشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کر کے نالوں کو چوڑا کیا جا رہا ہے۔

عدالتی احکامات پر حکومت نالوں پر قائم تجاوزات کا فوری خاتمہ تو کر رہی ہے لیکن ایسے کسی افسر یا سرکاری اہلکار کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس نے متاثرین کو نالوں پر لیز فراہم کی۔ یا ماضی میں میئر یا ناظمین کے عہدوں پر فائز کسی بھی سیاست دان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں ہوسکی۔

سینئیر ڈائریکٹر بشیر صدیقی کے مطابق چند ہزار افراد کو نالے سے ہٹا کر کروڑوں کی آبادی کو محفوظ کرنا کوئی مہنگا سودا انہیں ہے۔ لیکن ماریہ بی بی اور عابد حسین جیسے ہزاروں لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں کہ آخر وہ اپنے بچوں کو لے کر کہاں جائیں؟

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG