رسائی کے لنکس

بھارت کی حکومت اور ٹوئٹر میں تنازع شدید، اتر پردیش میں مقدمہ درج


پارلیمنٹ کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی نے ٹوئٹر کے اہلکاروں کو جمعہ کے روز طلب کیا۔ رپورٹس کے مطابق اس میٹنگ میں ان سے سخت سوالات کیے گئے۔ (فائل فوٹو)
پارلیمنٹ کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی نے ٹوئٹر کے اہلکاروں کو جمعہ کے روز طلب کیا۔ رپورٹس کے مطابق اس میٹنگ میں ان سے سخت سوالات کیے گئے۔ (فائل فوٹو)

بھارت کی حکومت اور سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم 'ٹوئٹر' کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ ایسا ٹوئٹر کی طرف سے وضع کردہ قوانین پر مبینہ طور پر عمل درآمد نہ کیے جانے کی وجہ سے ہوا۔ اس کے علاوہ ایک متنازع ویڈیو بھی اس ٹکراؤ کی وجہ بنی۔

اسی اثنا میں ریاست اتر پردیش کی پولیس نے ٹوئٹر کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا ہے۔

بھارت کی حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان ٹکراؤ چند ماہ قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب حکومت نے ٹوئٹر کو کسانوں کی احتجاجی تحریک میں شامل متعدد کسانوں کی ٹوئٹس ہٹانے کی ہدایت کی تھی۔ حکومت کے اصرار کے بعد اس نے متعدد ٹوئٹس ہٹا دی تھیں۔

حکومت کو کرونا وبا سے نمٹنے میں مبینہ ناکامی کا والی ٹوئٹس پر بھی اعتراض تھا۔

پارلیمنٹ کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی نے ٹوئٹر کے اہلکاروں کو جمعہ کے روز طلب کیا۔ رپورٹس کے مطابق اس میٹنگ میں ان سے سخت سوالات کیے گئے۔

رپورٹس کے مطابق اس میٹنگ میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کے حکام کو بھی بلایا گیا تھا۔ اس کا مقصد شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مبینہ غلط استعمال کے ایشو پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

ٹوئٹر پر الزامات

میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس میٹنگ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تین اراکین پارلیمنٹ راجیہ وردھن راٹھور، سید ظفر اسلام اور نشی کانت دوبے نے نئے قوانین پر مبینہ عدم عمل آوری پر سوالات کیے۔

کمیٹی کے اراکین نے امریکی کمپنی کے حکام سے کہا کہ ٹوئٹر نے تاحال ان قوانین پر عمل نہیں کیا ہے حالاں کہ وہ بھارت کے قوانین سے بالاتر نہیں ہے۔

کمیٹی کے اراکین نے الزام لگایا کہ ٹوئٹر کا انحصار بی جے پی کی مخالف این جی اوز کے مشوروں پر ہے۔

پارلیمنٹ کے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور ہیں۔

اس میٹنگ میں ٹوئٹر کی جانب سے پبلک پالیسی مینجر شگفتہ کامران اور قانونی مشیر آیوشی کپور نے شرکت کی۔

رپورٹس کے مطابق انہوں نے کہا کہ وہ سوالوں کے جواب دینے کی مجاز اتھارٹی نہیں ہیں، اس لیے بعد میں تحریری جواب دیا جائے گا۔

ٹوئٹر کی وضاحت

میٹنگ کے بعد ٹوئٹر کی جانب سے ایک بیان جاری کرکے کہا گیا کہ وہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے شفافیت، اظہارِ خیال کی آزادی اور پرائیویسی کے اصولوں کے مطابق حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ عوامی تبادلۂ خیال کے تحفظ کے مشترکہ عہد کے ساتھ بھارت کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

یہ نئے آئی ٹی قوانین کیا ہیں؟

بھارت کی حکومت کی طرف سے جو نئے قوانین وضع کیے گئے ہیں ان کے مطابق سوشل میڈیا اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو ایک ایسے اہلکار کا تقرر کرنا ہو گا جو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور قانونی اداروں کی جانب سے کی جانے والی شکایات پر متنازع مواد کو ہٹانے کا مجاز ہو۔

مزید برآں یہ کہ اگر عدالت یا حکومت کسی ٹوئٹ کے بارے میں یہ معلوم کرنا چاہے کہ اسے سب سے پہلے کس نے پوسٹ کیا تو انہیں اس شخص کی معلومات فراہم کرنی ہوں گی۔

ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز کو اس پر عمل کرنے کے لیے فروری میں تین ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔

حکومت نے کہا ہے کہ اگر کسی صارف نے اپنی پوسٹ سے بھارت کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور سوشل میڈیا کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے تو مذکورہ قوانین پر عمل کرنے والی کمپنیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ یہ قوانین 26 مئی سے نافذ ہو گئے ہیں۔

ٹوئٹر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے شکایت سننے کے لیے ایک اہلکار کا عارضی تقرر کیا ہے البتہ کرونا وائرس کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو رہی ہے اور اس بارے میں حکومت کو تفصیلات پیش کی جائیں گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر کے خلاف کیس درج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہونے کی وجہ سے جو قانونی تحفظ ملا ہوا تھا وہ ختم ہو گیا ہے کیوں کہ مقررہ مدت کے اندر اسے ڈیجیٹل گائیڈ لائنز کی پابندی ناکام کا سامنا رہا۔

وزیرِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے الزامات

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے کہا ہے کہ ٹوئٹر نے بھارت کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں اپنے ردِ عمل میں کہا کہ ٹوئٹر کو نئے قوانین پر عمل کرنے کے لیے کئی مواقع دیے گئے لیکن وہ ناکام رہا۔ لہٰذا اس نے اپنا قانونی تحفظ کھو دیا ہے۔

روی شنکر نے خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہے۔ ایسے میں جب کہ صدر اور وزیرِ اعظم سمیت نصف حکومت ٹوئٹر پر ہے تو اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت غیر جانب دار ہے۔

ان کے مطابق ٹوئٹر ایک اہلکار کا تقرر کر کے صارفین کی شکایات کو دور کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے بجائے اس نے ’مینی پولیٹڈ میڈیا‘ (ایسی آڈیو، ویڈیو یا تصویر جسے خاص رخ دیا گیا ہو) کی پالیسی پر عمل کیا۔ لیکن اس معاملے میں بھی وہ اپنی پسند کے مطابق اقدامات کرتا رہا۔

ان کے خیال میں ٹوئٹر نے جس کو چاہا مینی پولیٹڈ میڈیا کا ٹیگ لگا دیا اور جس پر نہیں چاہا نہیں لگایا۔

یاد رہے کہ ٹوئٹر نے کچھ روز قبل بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا کی ایک ٹوئٹ کو، جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا، ’مینی پولیٹیڈ میڈیا‘ کا ٹیگ لگا دیا تھا جس کے بعد دہلی اور گوڑ گاؤں کے اس کے دفاتر پر چھاپہ مارا گیا تھا اور نوٹس دیے گئے تھے۔

بی جے پی کے بعض دیگر کارکنوں کی پوسٹ کو بھی مینی پولیٹڈ میڈیا قرار دیا گیا تھا۔

بھارتی حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان ٹکراؤ چند ماہ قبل اس وقت شروع ہوا جب حکومت نے کسان تحریک میں شامل متعدد کسانوں کی ٹوئٹس ہٹا دینے کی ہدایت کی۔
بھارتی حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان ٹکراؤ چند ماہ قبل اس وقت شروع ہوا جب حکومت نے کسان تحریک میں شامل متعدد کسانوں کی ٹوئٹس ہٹا دینے کی ہدایت کی۔

بعض قانونی ماہرین روی شنکر پرساد کے مؤقف سے متفق نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو حاصل قانونی تحفظ واپس لینے کا اختیار نہیں ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا ٹوئٹر کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے؟ تو یہ مکمل طور پر عدلیہ کے اختیار میں ہے۔

متنازع ویڈیو اور پولیس کارروائی

اس سے قبل ریاست اترپردیش کے ضلع غازی آباد کے علاقے لونی میں ایک معمر مسلم شخص کی ایک متنازع ویڈیو وائرل ہونے پر غازی آباد پولیس نے جمعرات کے روز ٹوئٹر انڈیا کو قانونی نوٹس جاری کیا اور اس کے حکام کو ایک ہفتے کے اندر لونی تھانے میں حاضر ہونے کی ہدایت کی۔

منگل کو غازی آباد پولیس نے ٹوئٹر، نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘، صحافی محمد زبیر اور رعنا ایوب اور کانگریس کے ترجمان ڈاکٹر شمع محمد، کانگریس کے رہنما سلمان نظامی اور مشکور عثمانی، صحافی اور قلم کار صبا نقوی کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔

جب کہ بدھ کو بالی وڈ اداکارہ سورا بھاسکر، ٹوئٹر کے آصف خان، ’دی وائر‘ سے وابستہ صحافی عارفہ خانم شیروانی اور ٹوئٹر کے بھارت کے سربراہ منیش مہیشوری کے خلاف دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی گئی تھی۔

یہ شکایت ایک وکیل امت آچاریہ نے درج کرائی ہے۔ تاہم اس شکایت پر تاحال ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔

پولیس نے ٹوئٹر اور مذکورہ افراد پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے معمر مسلم شخص کی ویڈیو نشر کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں معمر مسلم شخص کو بعض افراد ڈنڈے سے پیٹ رہے ہیں۔

اس ویڈیو میں اس شخص کی داڑھی قینچی سے مونڈتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ پانچ جون کا ہے۔ 72 سالہ عبد الصمد سیفی کو چھ افراد نے اغوا کیا تھا۔

سات جون کو عبد الصمد سیفی نے سماج وادی پارٹی کے ایک مقامی رہنما امید پہلوان ادریسی کے ساتھ تھانے میں جا کر رپورٹ درج کرائی اور ایک فیس بک لائیو میں کہا کہ اغوا کاروں نے نہ صرف یہ کہ ان کو زد و کوب کیا بلکہ ان سے جے شری رام بولنے کو بھی کہا گیا۔

لونی پولیس نے امید پہلوان کے خلاف کیس درج کیا ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ امید نے ایک سازش کے تحت فیس بک لائیو کیا تھا جس کا مقصد اس معاملے پر مغربی اتر پردیش کے مختلف شہروں میں لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرنا تھا۔

غازی آباد پولیس نے ویڈیو معاملے میں اب تک نو افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں تین مسلمان اور باقی غیر مسلم ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ عبد الصمد کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ مذہب کی بنیاد پر نفرت کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ یہ ذاتی دشمنی کا معاملہ ہے۔

پولیس نے ملزمان کے حوالے سے کہا کہ عبد الصمد تعویز بناتے ہیں اور ان کے دیے ہوئے تعویذ نے ملزمان کے اہل خانہ پر الٹا اثر کیا تھا۔

جب کہ عبد الصمد کے بیٹے ببو سیفی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پولیس کے اس دعوے کی تردید کی اور کہا کہ ان کا خاندان بڑھئی کا کام کرتا ہے اور تعویز وغیرہ سے ان لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

پولیس کے مطابق جن لوگوں نے مذکورہ ویڈیو شیئر کی۔ انہوں نے اس کی صداقت کا پتا لگانے کی کوشش نہیں کی اور انہوں نے امن و امان کو درہم برہم کرنے اور مذہبی طبقات میں منافرت پیدا کرنے کے مقصد سے ویڈیو کو شیئر کیا۔

صحافی زبیر احمد کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی کہ معمر شخص سے جبراً جے شری رام بلوایا گیا۔ لہٰذا انہوں نے اپنی ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دی۔

جب کہ صحافی رعنا ایوب نے کہا کہ اس معاملے کی جانچ ہو رہی ہے اور جلد ہی سچ سب کے سامنے آجائے گا۔

صحافیوں کی مذمت

’دی وائر‘ نے اپنے اور دیگر صحافیوں کے خلاف پولیس کارروائی کی مذمت کی ہے۔

اس کے مطابق اس خبر اور ویڈیو کو کئی میڈیا اداروں نے نشر کیا۔ بیان کے مطابق حکومت کے نقطۂ نظر کے علاوہ دوسرے مؤقف کی رپورٹنگ کو مجرمانہ فعل قرار دینے کی یہ ایک کوشش ہے۔

ایڈیٹر گلڈ آف انڈیا، پریس کلب آف انڈیا، ممبئی پریس کلب اور صحافیوں کی دیگر تنظیموں اور میڈیا اداروں نے صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی مذمت کی ہے۔

ممبئی پریس کلب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نفرت پر مبنی واقعات کی رپورٹنگ کرنا نفرت انگیز جرم نہیں ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کوئی جرائم کی رپورٹنگ کرتا ہے تو وہ مجرم ہو گیا۔

پریس کلب آف انڈیا کے صدر اور سینئر صحافی اوما کانت لکھیڑا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اتر پردیش کی حکومت آج کل کئی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ لہٰذا اس نے ان سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ وارانہ ذہنیت کے تحت مذکورہ کارروائی کی ہے۔

ٹوئٹر کے خلاف کارروائیوں پر انہوں نے کہا کہ جب تک ٹوئٹر کی پالیسی حکومت کے حق میں تھی وہ حکومت کے نزدیک بہت اچھا تھا۔ لیکن اب جب کہ اس نے ایسی ٹوئٹس کو بھی نشر کرنا شروع کر دیا ہے جو حکومت کے لیے پریشان کن ہیں تو اس کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

دہلی جرنلسٹس یونین کے سکریٹری ودود ساجد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جس طرح میڈیا پر اپنا کنٹرول قائم کیا ہے اسی طرح وہ سوشل میڈیا پر بھی قابو پانا چاہتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذکورہ ویڈیو شیئر کرنے پر سب سے پہلے جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی وہ سب ایک خاص مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سے پولیس کی نیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان کے بقول اس خبر کو کئی نیوز چینلز نے نشر کیا اور کئی میڈیا اداروں نے وہ ویڈیو شیئر کی۔ لیکن پولیس نے صرف ان افراد کے خلاف کارروائی کی جو مودی حکومت کی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔

ٹکراؤ کی دیگر وجوہات

رواں ماہ کے اوائل میں ٹوئٹر نے نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کے مزید چار اعلیٰ عہدے داروں کے اکاؤنٹ سے ’بلیو ٹک‘ ہٹا دیا تھا۔

یہ اکاونٹس کئی گھنٹے تک بلیو ٹک سے محروم رہے۔ بلیو ٹک کسی بھی اکاونٹ کے تصدیق شدہ ہونے کی نشانی ہے۔

ٹوئٹر کے اس قدم پر بی جے پی رہنماؤں نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ خود نائب صدر کے دفتر نے اس معاملے کو اٹھایا تھا۔

اس معاملے پر ٹوئٹر کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اکاؤنٹ ایک سال تک غیر سرگرم یا اِن ایکٹیو رہتا ہے تو ٹوئٹر کے قانون کے مطابق اس کا بلیو ٹک کا درجہ ختم کر دیا جاتا ہے۔

آر ایس ایس کی دہلی شاخ کے ایک عہدے دار راجیو تلی نے خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قدم سے ٹوئٹر کا تعصب واضح ہے اور اس کا یہ قدم جاگیر دارانہ ذہنیت کی ایک مثال ہے۔

ان کے مطابق مزید کئی اکاؤنٹس غیر فعال ہیں لیکن انہیں بلیو ٹک کا درجہ حاصل ہے۔

اپوزیشن کا الزام

اپوزیشن جماعت کانگریس نے ٹوئٹر کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ مودی حکومت 140 کروڑ شہریوں کی آواز کو دبا دینا چاہتی ہے۔

حکومت کو کرونا وبا سے نمٹنے میں مبینہ ناکامی والی ٹوئٹس پر بھی اعتراض تھا۔
حکومت کو کرونا وبا سے نمٹنے میں مبینہ ناکامی والی ٹوئٹس پر بھی اعتراض تھا۔

کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ٹوئٹر اپنی جانب سے کچھ نہیں لکھتا۔ یہ تو ملک کے عوام ہیں جو حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف لکھ رہے ہیں۔

ان کے مطابق آج کوئی بھی صحافی حکومت کے خلاف نہیں لکھ سکتا۔ اگر کوئی لکھتا ہے تو اس کی ملازمت چلی جاتی ہے۔ ان حالات میں صرف یو ٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بچے ہوئے ہیں۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ٹوئٹر کے خلاف کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کے مطابق حکومت جب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی تو اب وہ انہیں تباہ کرنا چاہتی ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے بھی پولیس کی جانب سے ٹوئٹر کے خلاف کارروائی کی مذمت کی اور کہا کہ جب حکومت اس کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی تو اس نے کارروائی کروا دی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ملکی قوانین کو بالادستی حاصل ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی ان قوانین کی پابندی کرنی ہوگی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG